’’اچھا میں فون رکھتی ہوں۔ تو پھر آرہی ہے ناں!‘‘ نسیمہ نے سیلمہ سے تائیدی انداز میں پوچھا۔

’’ہاں ناں! کتنی بار پوچھے گی۔ آرہی ہوں۔ تو پریشان نہ ہو۔‘‘ سلیمہ نے پیارسے کہا اور فون رکھ کر اپنی اکلوتی چھوٹی بہن نسیمہ کے گھر جانے کی تیاری کرنے لگی۔

نسیمہ کے ہاں دوسرا بیٹا ہوا تھا۔ پہلے بچے کے بعد کم ہی وقفہ تھا۔ ساس سسر تو اس کی شادی سے پہلے کے انتقال کر چکے تھے۔ ایک ہی نند تھی جو ملک سے باہر ہوتی تھی۔ خود نسیمہ اور سلیمہ کے ماں باپ  بھی اب دنیا میں نہیں تھے۔ سو دونوں بہنیں ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹ لیا کرتی تھیں۔

 

 

اب بھی نسیمہ کے دوسرے بچے کی پیدائش پر سلیمہ نے اس کے ہاں جاکر رہنے کا پروگرام بنایا۔ سلیمہ کے تین بچے تھے جو چھوٹی خالہ کے گھر رہنے اور نئے مہمان کے لیے بہت ہی پر جوش ہو رہے تھے۔ ان کے والد لاہور سے باہر  فیکٹری سے متعلق  دورے پر تھے۔ ساس سسر ضعیف تھے ۔ سلیمہ کی ایک ہی غیر شادی شدہ نند تھی۔ نادیہ یونیورسٹی جایا کرتی تھی۔ بی ایس آنرز کر رہی تھی۔

آجکل  نادیہ کی چھٹیاں تھیں۔ تو یہ بھی سلیمہ کے لیے ایک اچھا موقع تھا کہ وہ نسیمہ کے گھر کچھ دن رہ کر آجاتی۔ چنانچہ اس نے بچوں کے کپڑے رکھے ،اپنی تیاری کی اور ٹیکسی کرکے نسیمہ کے گھر پہنچ گئی۔ یہاں ایک نیا منظر اس کے سامنے تھا جو اس کی صفائی پسند طبیعت کے لیے بہت ہی ناگوار تھا۔

مٹی سے اٹا ہوا فرش، کچن جھوٹے برتنوں سے بھرا ہوا اور میلےکپڑوں کی ٹوکری ابل رہی تھی۔نسیمہ کاآپریشن ہوا تھا سو وہ تو بیڈ سے اٹھنے کے لیے بھی سو بار سوچتی تھی۔اس حالت میں جب کہ ٹانکوں کی ٹیسیں بار بار اٹھ کر ایک بڑے آپریشن کی یاد دلا رہی ہوں گھر بار کی ہوش کسے رہتی ہے۔

سو سگھڑ اور پھرتیلی سلیمہ نے ڈیڑھ گھنٹے سفر کی تکان اتارنے کا ارادہ کسی اور وقت اٹھا رکھا اور جھاڑو اٹھا کر شروع ہو گئی۔ سب سے پہلے کچن میں میلے برتن سنک میں جمع کیے، شیلف اور چولہا صاف کیا اور نسیمہ کے لیے یخنی چڑھا دی۔ پھر سارے گھر سے جھاڑو دیا ، ڈسٹنگ کی اور ٹاکی لگا کر فارغ ہو گئی۔ آخر میں وہ برتن دھو کر نسیمہ کے کمرے میں آگئی۔

اتنے میں نسیمہ جو سلیمہ کے آنے پر ہی سو کر اٹھی تھی اب بچے کو نہلا دھلا کر فیڈ کروارہی تھی۔ بڑی بہن  کے آنے سے اس کی ہمت یکایک بڑھ گئی  تھی ۔  بچوں کو سلیمہ نے کھانا کھلا کر سلا دیا اور اب وہ دونوں ڈھیر ساری باتیں کرنے کے لیے بالکل فارغ تھیں۔

یوں کچھ خوبصورت ، باتوں بھرے اور مصروفیت والے دن گزار کر سلیمہ اپنے گھر کو لوٹی۔ آتے آتے نسیمہ کو ڈھیر ساری نصیحتیں کر آئی تھی۔ گھر پہنچ کر بھی اسے میسج کرنا نہیں بھولی۔ ہر روز فون کر کےاس کا حال پوچھتی رہی۔ ننھے سے متعلق نئے مشورے دیتی رہی حتیٰ کہ نسیمہ بھلی چنگی ہو کر گھر داری میں لگ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ’’آج ٹیسٹ کی رپورٹس آگئی ہیں۔‘‘ سلیمہ نے سنجیدگی سے فون پر کہا۔

’’اچھا! آپا! کیا بنا؟ جلدی بتاؤ ناں!‘‘ نسیمہ نے فکرمندی سے پوچھا۔

’’ یرقان  کا اٹیک ہے۔ لیکن دوا سے ٹھیک ہو جائے گا۔ تم پریشان نہ ہو۔‘‘ نرم دل سلیمہ نے بتانے کے ساتھ ساتھ تسلی بھی دے ڈالی۔ وہ تصور میں نسیمہ کی گھبراہٹ دیکھ رہی تھی۔

’’اچھا! پھر ٹھیک ہے آپا! تم نے تو ڈرا ہی دیا تھا۔‘‘ نسیمہ نے تھوڑا ہنس کر گہر ا سانس لیا ۔ پھر بولی۔

’’ اچھاچلو میں بند کر تی ہوں۔ یہ آگئے ہیں دکان سے۔ ‘‘ اس نے کہا اور فون رکھ دیا۔ پتہ کیوں  آج سلیمہ کچھ دیر ریسیور ہاتھ میں پکڑے رہ گئی۔ پھر اس نے بھی فون رکھا اور گھر کے کاموں میں مصروف ہو گئی۔ لیکن وہ پہلے کی سی بات نہ تھی۔ اس کو اپنی صحت گرتی محسوس ہو رہی تھی۔ بے انتہا کمزوری اور سستی نے جینا محال کر دیا تھا۔ وہ کوئی پھوہڑ عورت نہ تھی لیکن جب جان ہی نہ ہو تو جہاں کا کام کیسے چلے۔

پہلے تو نادیہ ، سلیمہ کی نند نے کام بانٹے رکھے۔ لیکن جب اس کی پڑھائی سخت ہو گئی اور فائنل بھی نزدیک آگئے تو وہ شام ڈھلے گھر آنے لگی کہ یونیورسٹی میں گروپ سٹڈیز کرنی ہوتی ہیں۔ ایسے میں سلیمہ کو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ نسیمہ کو فون کر کے اپنے گھر کچھ  دن کے لیے ،  چاہے ایک دن ہی سہی ، آنے کا کہ دے۔ اس کا خیال تھااور کچھ تو نہیں تو بچوں کے یونیفارم  وغیرہ استری کروالوں گی، لہسن ادرک دونوں بہنیں مل کر پیسیں گی تو فریز کر لوں گی۔ دالوں  چاول کے ڈبے کب سے ایسے ہی پڑے ہیں۔ اس مہینے کا سودا ڈالا ہی نہیں گیا۔ نسیمہ آئے تو کہوں گی سٹور سمیٹ دے ۔

ایک تفصیلی  صفائی کر لیں دونوں بہنیں مل کر۔ اس نے پنکھوں اور پردوں کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔

’’ہیلو! نسیمہ ! میں کہ رہی تھی کہ۔۔‘‘ سلیمہ نے بہت کچھ سوچا ہوا تھا  لیکن خود اپنے منہ سے کہتے ہوئے وہ بہت سے بامروت لوگوں کی طرح ہچکچا کے رہ گئی۔

’’کیا ہوا آپا! بتائیں ناں!‘‘ نسیمہ نے پوچھا۔

’’اصل میں  میری طبیعت کچھ دنوں سے ٹھیک نہیں ۔ اگر تم ایک دو دن کے لیے آجاؤ تو ۔۔‘‘ سلیمہ سے اس بار کی طرح بھی جملہ پورا نہ ہوا۔

’’آپا! وہ میں بھی یہی کہنے لگی تھی کہ۔۔‘‘ نسیمہ نے ابھی اتنا ہی کہا کہ سلیمہ کے دل سے بوجھ اترنا شروع ہو گیااور وہ نئے پلان بنانے کا سوچنے لگی۔

’’کہ آجکل ان کی دکان میں بہت کام ہو گیا ہے۔ تو دوپہر میں یہ  گھر نہیں آسکتے۔ نوکر کھانا لینے آتاہے تو اس کو کھانا وغیرہ دینا ہوتا ہے۔بچوں کے پیپر بھی ہونے لگے ہیں تو  ان کو  بھی ٹیوشن لازمی بھیجنا ہوتا ہے۔  اس لیے پھر کبھی سہی  آپا! لیکن میں پروگرام بناؤں گی۔ آپ فکر نہ کریں۔ناراض نہ ہونا آپا! ‘‘ نسیمہ جلدی جلدی کہ رہی تھی۔

’’کوئی بات نہیں نسیمہ! تم میری چھوٹی بہن ہو۔ تم سے کیا ناراضگی۔ میں تو ایسے ہی کہ رہی تھی۔ اچھا ننھا کیا کررہا ہے۔ بڑا ماجد سکول گیا کہ نہیں؟‘‘ یہ کہتے ہوئے سلیمہ نے چپکے سے اپنی آنکھوں کے کنارے صاف کر لیے۔

ضروری نہیں کہ دینے والوں کو دنیا میں ہی مل بھی جایاکرے۔ کیونکہ ایسے لوگوں کو اللہ پاک دو ثواب  دینا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ ایک بے لوث خدمت کا صلہ دوسرا ، صبر کرنے کا اجر ۔ سو توقع صرف اللہ سے رکھنی چاہیے اور کسی سے نہیں!