بالکل فکر نہ کرنا

          Print

میرا تعلق شہر کراچی کے ایک متوسط خاندان سے ہے۔ بہت سالوں قبل جب میں تعلیم کیلئے لندن آیا تو میرے سر پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح اپنی ماسٹرز کی فیس جمع کرنی ہے اور ساتھ ہی ڈگری وقت پر مکمل کرنی ہے۔ آج کے حساب سے مجھے کم و بیش تیرہ لاکھ روپے درکار تھے۔ اس ہدف کا حصول قریب قریب ناممکن تھا۔

جن لوگوں کے ساتھ رہائش تھی وہ سب مذاق اڑاتے اور

کہتے ۔ ’’ہم بھی دیکھتے ہیں کہ یہ ڈگری کرنے کا بھوت تمہارے سر پر کب تک رہتا ہے؟'‘‘ وہ پورے خلوص سے مجھے مشورہ دیتے کہ اس ڈگری وگری میں کچھ نہیںرکھا، اصل کام تو پاونڈ چھاپنا یعنی کمانا ہے۔

خوش نصیبی سے آتے ہی ایک ریسٹورانٹ میں بیرے کی نوکری مل گئی۔ سارا دن اور دیر رات تک بیرا گیری کرتا، پلیٹیں دھوتا، فلور صاف کرتا، کیش کاؤنٹر سنبھالتا۔

یونیورسٹی کی کلاسز ہفتے میں تین روز ہوا کرتیں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ یونیورسٹی سے سیدھا کام پر آجاتا۔ کئی بار اڑتالیس گھنٹوں تک بناء سوئے کلاسز لیں اور نوکری کی۔ ہوٹل کی اس نوکری کے علاوہ بھی الحمدللہ طرح طرح کی مزدوریاں کیں۔

وقت گزرتا گیا اور میں نے ایک کے بعد ایک سیمسٹر نمایاں نمبرز سے پاس کرلئے مگر جب پروجیکٹ جمع کرانے کی صورت میں آخری مرحلہ آیا تو اسے تیار کرنے کیلئے جو لازمی وقت و محنت درکار تھی وہ میں نہ نکال سکا۔ وجہ یہی تھی کہ فیس کی آخری انسٹال منٹ دینے کیلئے دہری نوکری کرنا پڑتی تھی اور اس کے بعد جسم و ذہن میں پروجیکٹ کیلئے قوت باقی نہ رہتی تھی۔ خیر بڑی مشکل سے ٹوٹا پھوٹا پروجیکٹ بنا پایا اور جمع کرادیا۔

دل میں شدید خوف تھا کہ معلوم نہیں یہ پروجیکٹ پاس بھی کیا جائے گا یا نہیں؟ والدہ کا روز فون آتا جس میں وہ مجھ سے رزلٹ کے بارے میں دریافت کرتیں۔

آخر ایک دن بذریعہ ڈاک مجھے اپنا رزلٹ گھر پر موصول ہوا۔ دھڑکتے دل سے جب لفافہ کھولا تو یہ دیکھ کر سانسیں ڈوبنے لگیں کہ میرے پروجیکٹ کو ریجیکٹ کردیا گیا تھا۔ جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ مجھے چھ مہینے دوبارہ محنت کرکے نیا پروجیکٹ جمع کروانا ہوگا۔

میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے جب پاکستان سے والدہ کا فون آیا۔ انہوں نے حسب معمول رزلٹ کا دریافت کیا۔ مجھ میں سچ بولنے کی ہمت نہ تھی لہٰذا میں نے جھوٹ کہا کہ امی ابھی رزلٹ آنے میں وقت ہے۔ جواب میں امی نے مجھے ڈھارس دیتے ہوئے کہا کہ عظیم بالکل فکر نہ کرنا ، آج شب قدر ہے میں رات بھر تمہاری کامیابی مانگوں گی اور تم دیکھنا کہ تم کامیاب ہی رہو گے۔ میں نے دل میں سوچا، اب کون سی کامیابی؟ رزلٹ تو میرے ہاتھ میں ہیں جو مجھے ناکامی کی خبر سنا رہا ہے۔

خیر وہ رات والدہ نے عبادت میں اور میں نے خاموش ماتم میں گزاری۔ صبح ہوئی تو یونیورسٹی سے فون آیا، میں نے گھبرا کر اٹھایا تو دوسری طرف سے آواز آئی کہ ہم بہت معذرت خواہ ہیں کہ ہم نے آپ کو غلط رزلٹ بھیج دیا ہے۔ اصل میں تو آپ اچھے نمبروں سے کامیاب ہوچکے ہیں۔

میری سمجھ مفقود تھی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انگلینڈ جیسے نظم و ضبط والے ملک کی ایک نمایاں یونیورسٹی سے ریزلٹ بھیجنے میں ایسی زبردست چوک ہوجائے؟ مگر کہیں میرا دل یہ جانتا تھا کہ یہ معاملہ حسن اتفاق نہیں بلکہ عطا الہی کا غماز ہے جو میری والدہ کی دعا کا نتیجہ ہے۔ ایسے کتنے ہی معجزات ہیں جو میری زندگی میں اپنے والدین کی دعاؤں سے برپا ہوئے ہیں۔ لوگ کسی بزرگ کی دعا کیلئے دن رات جتن کرتے ہیں مگر اکثر ویسی کوشش اپنے والدین کی دعا کے حصول کیلئے نہیں کرتے۔ حالانکہ یہ باپ کی دعا ہے جو رد نہیں ہوتی اور یہ ماں کی دعا ہے جو عرش ہلادیتی ہے۔


{rsform 7}