عارف جعلی دوائیوں کا کاروبار کرتا تھا۔ پہلے پہل اس کی ایک چھوٹی سی دکان تھی اور دوائیاں بھی اس نے اصل رکھی ہوئی تھیں۔ لیکن پھر ایک دوست کے بتانے پر اس نے جعلی دوائیاں رکھنی شروع کیں تو اس مہینے اس کو دگنا منافع ہوا۔ پھر عارف نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اب تو اس نے ایک کی بجائے دو دکانیں اکھٹی کرائے پر لے لی تھیں۔ کبھی کبھار اس کے اندر حلال اور حرام کی تکرار شروع ہو جاتی لیکن جب وہ پیسوں سے بھرے ہوئے باکس پر نظر ڈالتا تو اس کا لالچی دل ضمیر کی آواز کو سلانے میں کامیاب ہو جاتا۔
عارف کی بیوی اور اماں کو عارف کے اس مکروہ دھندے کا کچھ علم نہیں تھا۔وہ یہ سمجھتی تھیں عارف اپنی دن رات کی محنت سے اتنی ترقی کر رہا ہے۔
........................
’’بھائی جی ! یہ والے کیپسول دینا ۔‘‘ ساتھ والے کاؤنٹر پر بیٹھے عارف نے ایک نظر عورت پر ڈالی جو کسی گھر کی ملازمہ لگتی تھی۔ اس کے دل میں ایک لمحے کے لیے خیال آیا کہ اس غریب عورت کو جعلی دوا دینےکی بجائے کہ دیتا ہوں کہ نکڑ والے میڈیکوز سے لے آؤ۔ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ شیشے کا دروازہ کھولتے ہوئے اس کا دیرینہ دوست اکرم اندر داخل ہوا۔
’’ارے اکرم تو! ‘‘ عارف کاؤنٹر سے نکل کر آیا اور اکرم سے بغل گیر ہو گیا۔
اسی اثناء میں اس کا ملازم اکبر شیلف میں سےکیپسول لا کر اس عورت کے ہاتھ میں تھماچکا تھا۔عارف نے اکبر کے ہاتھ سے دو لال نوٹ لے کر باکس میں رکھ دیے اور اکرم سے باتوں میں مصروف ہو گیا۔
....................
’’باجی! آپ کو کام والی کی ضرورت ہے تو میں آجایا کروں؟ میرا شوہر معذور ہے ۔ مجھے اپنے ہاں کام پر رکھ لیں۔‘‘ شبانہ نے دروازہ کھولا تو وہ باتونی عورت شروع ہی ہو گئی۔ شبانہ نے ایک لمحے کو سوچا ۔ پھر اسے اندر لے آئی۔
جب تک شبانہ اس کے لیے ٹھنڈا پانی لاتی، اس کی ساس اس عورت کا تفصیلی انٹرویو کر چکی تھیں۔ ’’ٹھیک ہے ! تم آج ہی سے کام شروع کردو۔‘‘ آخر انہوں نے اس عورت سے کہا۔
....................
’’بہو! عارف سے کہنا دوپہر کو آتے ہوئے میرے کیپسول لے آئے۔ ‘‘ شبانہ کی ساس بولیں تو شبانہ کو یاد آیا۔
’’اماں! آج عارف رات کو گھر آئیں گے۔ صبح ہی وہ کہ رہے تھے آج کل رش بہت ہو گیا ہے گاہکوں کا۔دوپہر کو نہیں آسکوں گا۔ ‘‘
’’تو میری دوا کون لائے گا۔ خوراک لازمی لینی ہے۔‘‘ اماں پریشان ہو گئیں۔
اچانک شبانہ کو ایک خیال آیا۔
’’بات سنو! یہ دکان ہے ناں عارف میڈیکوز۔ اس سے یہ والے کیپسول لے آؤ۔‘‘
اس نے اماں کے ہاتھ سے دوا کی پرچی لے کر ملازمہ کو دیتے ہوئے کہا۔
...................
’’نہ جانے یہ کیسے کیپسول تھے؟‘‘ شبانہ نے شدید گھبراہٹ کے عالم میں سوچا۔ وہ کئی بار عارف کو کال کر چکی تھی لیکن شاید اس نے سائیلنٹ پر لگا رکھا تھا۔ ادھر اماں کی طبیعت بگڑتی ہی چلی جارہی تھی۔ آخر اس نے پڑوسن کے بیٹے سے ٹیکسی لانے کا کہا۔
......................
’’سوری! ہم آپ کی والدہ کو نہیں بچا سکے۔‘‘ ڈاکٹر ز نے ایمرجنسی روم کے دروازے کے ساتھ ہی کھڑے عارف سے کہا۔ ’’دراصل یہ جعلی کیپسول تھے جو معدے میں جاتے ہی ری ایکٹ کر گئے ۔ہمیں بے حد افسوس ہے۔‘‘
عارف لزرتے قدموں کے ساتھ وہیں بیٹھتا چلا گیا۔ ہاسپٹل کے در و دیوار اس کی نظروں کے سامنے گھوم رہے تھے۔ اس نے ایک نظر سٹریچر پر رکھی ہوئی اپنی ماں کی میت کو دیکھا۔ اسے لگا اماں رو رو کرکہ رہی تھیں ۔ ’’تم میرے قاتل ہو۔ نہ صرف میرے بلکہ نہ جانے کتنے ہی اور مریضوں کے جن کو تم نے صرف اپنی لالچ اور حرص کی خاطرجعلی دوائیاں دے دیں۔ ‘‘ عارف نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے تھے لیکن پھر بھی اسے معلوم تھا یہ آوازیں اب ساری زندگی ا س کا پیچھا کرتی رہیں گی...........!
{rsform 7}