’’السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!‘‘

’’ارے! وعلیکم السلام  افضل صاحب !بھئ کیسے مزاج ہیں آپ کے؟ ‘‘

افضل صاحب نماز عصر کی ادائیگی کے بعد مسجد کے باہر  مختلف ٹھیلوں سے چیزیں خریدنے میں مگن تھے جب طارق صاحب کی آواز پہ چونکے اور فورا پلٹے ۔

’’جی طارق میاں اللہ کا خاص کرم ہے۔ آپ سنائیں۔‘‘

’’بھئ ہمارے حال بھی اچھے ہیں اللہ کے فضل سے۔‘‘ طارق صاحب نے پر جوش انداز میں جواب دیا۔

’’ویسے سب خیریت تو ہے ؟کوئی دعوت ہے گھر میں جو اس  قدر سامان خریدا جارہا ہےاور آپ کا لباس بھی آپ پہ بہت جچ رہا ہے۔لگتا ہے کوئی خاص دعوت کا اہتمام کیا جارہا ہے۔‘‘

طارق صاحب نے ان کی خریداری دیکھ کر استفسار کیا۔

افضل صاحب سفید کلف دار شلوار قمیض  میں ملبوس ساتھ کالے رنگ کی ویسٹ کوٹ پہنے ،  سائیڈ پہ چھوٹا سا پاکستانی جھنڈے کا بیج  لگائے ہوئے تھےجس نے انکی شخصیت کو مزید نکھار دیا تھا۔

وہ کھلکھلا کے ہنس دیے۔

’’ارے نہیں طارق صاحب! وہ دراصل آج 23 مارچ ہے ناں۔ چھٹی کا دن بھی ہے۔اسی دن کو خاص بنانے کیلئے اپنی فیملی کے ہمراہ تفریح کرنے کا اور پھر کوئی اچھی مووی دیکھنے کا پروگرام بنایا ہے اور یہ سب تیاریاں بھی خاص اسی وجہ سے ہیں۔‘‘

افضل صاحب جوش سے بتا رہے تھے ۔

طارق صاحب کو شدید افسوس ہوا ۔وہ قطعی یہ توقع نہیں کرہے تھے کہ افضل صاحب جو ماشاء اللہ پنج وقت کے نمازی ہیں اور مسجد میں اکثر آتے جاتے رہتے ہیں، اس طرح  کی بات کریں گے۔

وہ یاسیت سے بولے۔

’’بھئی آج واقعی تاریخ کا خاص دن ہے۔ اور ہماری آزادی کی تحریک کا سب سے نمایاں اور اہم ترین دن مگر افسوس اس دن کی اصل اہمیت سے ہم واقف ہیں نہ ہی پاکستان بننے کے اصل مقصد سے۔‘‘

طارق صاحب سنجیدگی سے کہ رہے تھے۔

’’جس مقصد کیلئے پاکستان کا وجود بنایا گیا وہ تقریبا فوت ہوچکا ہے۔23 مارچ ......ایک اہم تاریخی دن ہے اس دن ایک نیا ملک بننے کی قرارداد منظور کی گئی  تھی جو جلد دنیا کے  نقشہ پہ ظہورپذیر ہوتا۔ یہ  تمام برصغیر کے مسلمانوں کی ان گنت قربانیاں اور انتھک جدوجہد کا صلہ تھا۔یہ بیشک ایک بہت بڑی خوشخبری تھی۔ایک ایسا ملک مل جانا جہاں کی کھلی فضا میں آزادی کا سورج روشن ہوتا ہو، جہاں کی ہوائیں کھل کر جینے کا پیغام دیتی ہوں۔جہاں ہم اپنے  مذہب کی پاسداری کرتے ہوں۔ بلا خوف وہراس کے اللہ سبحانہ تعالی  کا نام لیتے ہوں ، عبادت کرتے ہوں ،نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوں اور انہیں عام  کرتے ہوں ۔بلا شبہ آزاد ملک کا حاصل ہوجانا انعام ونعمت  خداوندی تھا۔مگر افسوس.... ہم نے اس عظیم قربانی کا مقصد نہ صرف فراموش کردیا بلکہ اس  سے سمجھنے سے بھی قاصر رہے۔‘‘

افضل صاحب طارق صاحب کی باتیں غور وخوض سے سن رہے تھے۔انہیں یہ محسوس ہونے لگا تھاکہ جیسے وہ پاکستان کے اصل مقصد سے میں آج واقف ہورہے ہوں ۔انہوں نے اپنے عمل کے پیش نظر کوئی توجیہہ پیش نہیں کی تھی۔

طارق صاحب نے افضل صاحب کا چہرہ دیکھا تو وہاں گہری سوچ نظر آئی۔ ماتھے پہ شکنیں پڑنے لگی تہیں۔

انہیں افضل صاحب پوری طرح متوجہ نظر آئے۔

طارق صاحب نے اپنی بات کا سلسلہ جاری رکھا ۔

’’وہ 23 مارچ 1940  جسے قرارداد پاکستان کی یاد میں منایا جاتا ہے، کے بارے میں بتاتے ہوئے کہنے لگے۔

’’آل انڈیا مسلم لیگ کا 27 واں سالانہ اجلاس منٹو پارک لاہور میں منعقد ہوا جو 22 مارچ سے 24مارچ 1940ء تک جاری رہا۔اس اجتماع میں 23 مارچ 1940ء کو تقریر کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایاتھا:

’’مسلمان قوم کسی بھی تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں اور انکے پاس اپنا وطن،اپنا علاقہ اپنی اور اپنی ریاست ہونی چاہیے جہاں مسلمان مکمل طور اپنی روحانی،ثقافتی ،اقتصادی،سماجی اور سیاسی زندگی کی اس  طرح تعمیر کریں جس سے ہم سب  بہتر سمجھیں اور جو  ہمارے تصور سے مطابقت رکھے اور ہمارے لوگوں کی خواہش کے مطابق ہو۔‘‘

افضل صاحب اندازہ کرچکے تھے کہ آج تک انہوں نے پاکستان کی تاریخ کو صرف پڑھا تھا۔کبھی دل سے محسوس نہیں کیا تھا۔انہیں اس بات پہ پشیمانی ہورہی تھی ۔۔وہ کبھی یہ سمجھ  ہی نہ سکے کہ پاکستان کا اصل مقصد لا الہ الا اللہ ہے۔

’’آج ہم یوم پاکستان صرف پرچم لہرا کراور چھٹی مناکے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ پاکستان کا حق ادا کرلیا۔درحقیقت ہم دھوکے میں جی رہے ہیں۔پاکستان کا حق ادا تب ہی ہوسکتا ہے جب ہم اپنے ملک کو برا بھلا کہنے کے بجائے اس کیلئے سرگرداں نظر آئیں۔اس کے مقصد کو عملی جامہ پہنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک پر امن،محفوظ اور روشن مستقبل دینے کیلئے کوشاں رہیں۔‘‘

طارق صاحب اپنی بابت مکمل کرکے اب خاموش ہوچکے تھے۔ انکی آنکھوں میں امیدوں  کے دیئے روشن تھے۔ وہ ایک معروف کمپنی میں اعلی عہدے پر فائز تھے اور ملک و قوم کی فلاح وبہبود کیلئے ہر ممکنہ کوشش کرنے میں خود کو ہلکان رکھتے تھے۔

افضل صاحب کی آنکھوں پہ جو سیاہ پٹی لپٹی تھی وہ کھل چکی تھی۔ دل کی سیاہی ختم ہوچکی تھی۔ہر طرف روشنی منعکس تھی۔وہ خود پاکستان کے ایسے شہریوں میں ہمہ گیر تھے جو روز دفتر میں  بیٹھ کر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پاکستان کولعن طعن کرتے تھے۔برا بھلا گردانتے تھے۔کبھی خود کامحاسبہ نہیں ہوتا تھا۔ہربرے کام کی وجہ ملک کو ٹھہرادیا جاتاتھا۔

یہ ہردوسرے شہری کی کہانی بن چکی ہے۔ذرا سوچئے۔یہ ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے!

کل کو ایسا نہ ہو باطل کی طاقت قوی تر ہوجائے اور ہمارا  پیارا ملک صحفہ ہستی سے ہی مٹ جائے۔آئیے ہم ایک ہوکے اپنے ملک کی بہتری کیلئے قدم سے قدم ملا کے چلیں۔

پاکستان زندہ باد!