مسکراہٹ کا رشتہ

یہ آج سے کئی سال پہلے اتوار کے دن کی بات ہے۔ میں قریبی  پارک میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ اچانک میری نظر ایک فیملی پر پڑی۔

’’بیٹا! وضو کہاں کرنا ہے؟‘‘ ایک بوڑھے سے ،ضعیف بابا  اپنے نوجوان بیٹے سے پوچھ رہے تھے۔  وہ لوگ بیت الخلاء کے سامنے والی سیڑھیوں پر کھڑے تھے۔ نوجوان کی بیوی کا منہ بنا ہوا تھا۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ اپنے سسر کو ساتھ لانے پر قطعاً راضی نہیں تھی۔

لیکن اس وقت میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب بیٹے نے اپنے والد کے بار بار بلانے کے باجود مڑ کر اس کو دیکھا تک نہیں۔ یہ دیکھ کر میں چند قدم آگے بڑھا۔

ضعیف والد کے چہرے پر اب شرمندگی کے آثار تھے۔ شام کا ٹھنڈا موسم تھا لیکن ان کے چہرے

پر پسینے کے قطرے صاف دیکھے جاسکتے تھے۔ میں نے غصے سے ان کےبیٹے کو دیکھا جو نخوت اور اکڑ پن میں ادھر منہ کیے کھڑا تھا۔ نہ جانے اسے اپنے بوڑھے باپ کی کس بات پر غصہ تھا۔

میں نے آگے بڑھ کر نوجوان سے کہا۔ ’’بھائی صاحب! آپ نے سنا نہیں۔ آپ کے والد صاحب آپ سے کچھ پوچھ رہے ہیں۔‘‘ نہ چاہتے ہوئے میرا لہجہ طنزیہ ہو گیا تھا۔

اس ناخلف نے بجائے مجھے جواب دینے کے مڑ کرسب کے سامنے  اپنے باپ کو ڈانٹنا شروع کر دیا۔

’’بابا ! آپ کو دس مرتبہ سمجھایا تھا یہاں لوگ سیر کرنے آتے ہیں۔ نماز روزہ کرنا تھا تو گھر میں رہتے ناں۔ ہمیں کیوں ڈسٹرب کر رہے ہیں بار بار۔ گھر جا کر پڑھ لیجیے گا نماز ۔ خدا کے لیے جان چھوڑ یں ہماری۔ہونہہ! ساتھ لا کر پچھتایا ہوں میں تو۔ سب کے سامنے شرمندہ کرواتے ہیں آپ۔ ‘‘ یہ کہ کر اس نے اپنی بیوی اور بچے  کا ہاتھ پکڑا اور پیر پٹختا ہوا اوپر چلا گیا۔گویا  اس کے نزدیک پارک میں نماز پڑھنا  نعوذ باللہ کوئی شرمندگی کی بات  تھی۔

بوڑھے باپ کا تو وہ حال تھا کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ ا ن کی نظریں جیسے زمیں میں گڑ گئی تھیں۔ ہاتھ ہولے ہولے کانپ رہے تھے۔ میں نے چند لمحوں کے لیے سوچا  پھر آگے بڑھ کر دونوں ہاتھوں سے ان کے کمزور بازوؤں کو تھام لیا اور مسکرا کر ان کی جانب دیکھا۔ جب انہوں نے سر اٹھایا تو ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ایک سیکنڈ کے لیے میرا دل کرچی کرچی ہو گیا۔ کیا کچھ نہ تھا ان کے آنسوؤں میں۔ چند لمحوں کے لیے وہ مجھے دیکھتے رہے پھر وہ بھی مسکرانے لگے۔

بس! مسکراہٹ کا یہ رشتہ میرے اوروقار صاحب کے بیچ آج بھی قائم ہے۔میں انہیں باباجان کہتا ہوں۔ ہم دونوں ہر اتوار کو اکھٹے سیر کرنے جاتے ہیں۔ گول گپے کھاتے ہیں  اور پرچ پیالی والا جھولا جھولتے ہیں۔ عصر کی نماز پڑھتے ہیں اور ڈھیروں باتیں کرتے ہوئے گھر آجاتے ہیں۔ رات کا کھانا میں ان کو اپنے ہاتھوں سے کھلاتا ہوں۔ ان کے پاؤں دباتا ہوں۔ وہ دعائیں دیتے ہوئے نیند کی گہری وادیوں میں اتر جاتے ہیں۔

مجھے لگتا ہے میرے فوت ہوئے والد میرے پاس واپس لوٹ آئے ہیں۔میں خود کو  دنیا کا خوش نصیب ترین  انسان سمجھتا ہوں جسے ایک بارپھر اپنے والد کی خدمت کرنے کا موقع مل گیا ہے۔  باباجان کے بیٹے عمیر  کا ایک دو بار فون آیا تھا ۔ اس نے سرسری سا واپس چلنے کا کہا۔ باباجان نے انکار کر دیا اور اس نے فون رکھ دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 ’’بھئی آج تو میں پاپڑ ضرور کھاؤں گا۔ تم جو مرضی کر لو۔ ‘‘ بابا جان کہنے کے ساتھ ساتھ پاپڑ والے کو ہاتھ سے اشارہ کر رہے تھے۔

’’پچھلی بار بھی آپ کو بدہضمی ہو گئی  تھی۔ جی نہیں! یہ آپ کے لیے ٹھیک نہیں۔ چلیں اٹھیں!‘‘ میں نے ان کو پیار سے سمجھایا۔ اچانک مجھے لگا دو آنکھیں مجھے گھور رہی ہیں۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو سامنے والی فٹ پاتھ پر عمیر کھڑا تھا۔ آج اس کی بیوی اور بچہ اس کے ساتھ نہیں تھے۔ چہرے پر ایسی ویرانی اور وحشت تھی کہ میرا دل دہل سا گیا۔ اس نے حسرت بھری نظروں سے میرے ساتھ بیٹھے کھلکھلاتے ہوئے باباجان کو دیکھا اور ٹوٹے قدموں کے ساتھ واپس چلا گیا۔  

مجھے نہیں پتہ آپ کے پاس کتنے وسائل ہیں لیکن اگر کبھی آپ کو مسکراہٹ کا کوئی رشتہ بنانے کا موقع ملے تو ضرور بنائیے گاکیونکہ دل سے نکلی ہوئی دعاؤں کا کوئی مول نہیں۔


{rsform 7}