’’پندرہ برس کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا۔ میں نے اپنی زندگی کے پندرہ برس کانٹوں کے بستر پر گزارے ہیں۔میں روز مرا اور روز جیا ہوں۔مجھے صرف انتقام نے زندہ رکھا ہے۔‘‘

اس نے ڈائری پر ابھی اتنا ہی لکھا تھا کہ قلم نے چلنے سے انکار کر دیا۔ عاطف نے قلم کو انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے پکڑا اور کھڑکی کی جانب اچھال دیا۔ قلم کھڑکی سے باہر پڑے ایک گملے میں جا گرا۔
’’پتا نہیں میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟ مجھے جب بھی کوئی خوشی میسر ہوتی ہے اُسے ہرن کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی پنگا ضرور ہو جاتا ہے۔‘‘ اس نے اپنے آپ سے سرگوشی کی اور پھر کرسی چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل آیا۔ یہ ایک بڑے بحری جہاز کا حصہ تھا۔ جس کے ایک طرف کمروں کی قطار تھی اور ان کمروں کے سامنے ایک راہداری سی بنی ہوئی تھی۔ جس میں قطار در قطار گملے رکھے ہوئے تھے جن میں سمندر ی موسم سے مطابقت رکھنے والے پودے اگائے گئے تھے۔ آگے جہاز کا خالی عرشہ تھا۔ اور اس سے آگے ریلنگ لگی ہوئی تھی۔ عاطف اسی ریلنگ کے ساتھ جا کھڑا ہوااور تاحد نگاہ پھیلے سمندر کو تکنے لگا۔

 

سمندرنسبتا پر سکون تھا۔ چند ایک آوارہ لہریں سر پٹخ رہی تھیں۔ جن کا شور ہلکا سا ردھم پیدا کر رہا تھا۔ شام پھیل کر رات میں ڈھلنے لگی تھی۔ اس لیے تھوڑے فاصلے تک ہی نظر پہنچ پا رہی تھی۔ ماضی کا ایک ایک لمحہ عاطف کے ذہن میں سکرین پر چلتی فلم کی طرح گردش کر رہا تھا۔ اسے رہ رہ کر پندرہ سال قبل کا دن یاد آ رہا تھا جب اُس کا پہلا بیٹا پیدا ہوا تھا اور اسی دن اس نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے ذاتی مکان خریدا تھا۔ ان دونوں خوشیوں کے اکٹھا ہوجانے پر اس نے ایک شاندار دعوت کا بند و بست کیا ہوا تھا۔ جس میں اس کے دوست، رشتہ دار اور معززین علاقہ شریک تھے۔ خوشیوں کے شادیانے بج رہے تھے۔ اس کے گھر کے باہر گاڑیوں کی ایک لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔ کھانے پینے کے برتن کھنکنا رہے تھے۔ گلی کی دوسری جانب کچھ لوگ کھڑے سگریٹ اور پان سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اچانک شہر کے مشہور و معروف غنڈے احسان سانی کی گاڑی اس کے گھر کے سامنے آ کر رکی اور وہ زور زور سے عاطف کو آوازیں دینے لگا۔ عاطف نے بڑی ملائمت کے ساتھ اس سے آنے کا مقصد پوچھا تو اس نے بلا تمہید عاطف کو تین دن کے اندر اندر گھر چھوڑنے کی وارننگ دی اور کہا کہ’’ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اس کے ساتھ بڑا برا حشر ہوگا۔‘‘ عاطف ہونقوں کی طرح اس کا منہ دیکھنے لگا۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے؟بالآخر ہمت مجتمع کر کے بولا ’’بھائی صاحب! آپ کا کک۔۔۔ کیا مطلب ہے مجھے کچھ سس۔۔۔ سمجھ نہیں آیا، یہ یہ گھر میرا اپنا ہے اور ابھی آج ہی میں یہاں شفٹ ہوا ہوں۔ آپ کک۔۔۔ کس قانون کی رُو سے مجھ سے اس سے دستبردار ہونے کو کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’اوئے ہمیں قانون سکھاتا ہے؟تیرا ہی گھر ہے اسی لیے تو تجھے کہہ رہا ہوں کہ پرسوں شام تک اسے چھوڑ دے۔ ہمیں یہ گھر پسند آ گیا ہے۔بس! بات ختم!  تو شریف انسان ہے اس لیے تجھے پرسوں تک کی مہلت دے رہا ہوں۔ کوئی اور ہوتا تو دو منٹ میں بوریا بستر گول ہوتا۔ اگر مزید بک بک کر ے گا تو تجھے تیرے مہمانوں کے سامنے سبق سکھا دوں گا۔‘‘سانی نے زہر خند لہجے میں چٹکی بجاتے ہوئے کہا اور جواب لیے بغیر گاڑی دوڑاتا ہوا چلا گیا۔
عاطف کی ساری خوشیوں پر پانی پھر گیا۔ وہ گھر جس میں چند لمحے قبل خوشیوں کے شادیانے بج رہے تھے اب ماتم کدہ بنا ہوا تھا۔ کوئی عاطف کو تسلی دے رہا تھا تو کوئی مشوروں سے نواز رہا تھا۔یوں بھی ایسے موقع پر مفت مشورہ دینے والے بہت ہوتے ہیں۔ عاطف کو یوں لگ رہا تھا جیسے وہ یک دم آسمان سے زمین پر آ گرا ہو۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا دیا اور ایک بڑا قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے سوچا ’’میں غنڈے سے لڑوں گا، میں اسے اپنی جائیداد پر قبضہ نہیں کرنے دوں گا۔‘‘
وہ ایک نیا عزم لے کر اٹھا اور اپنے بچپن کے دوست رشید کے پاس جا پہنچا۔ جسے حوادثات زمانہ جرائم کی دنیا میں لے آئے تھے۔ عاطف کو دیکھتے ہی وہ اس کی جانب لپکا اور اس کی یوں اچانک آمد کے بارے میں پوچھا تو عاطف نے ساری داستان اسے سنا ڈالی۔ رشید تھوڑی دیر تک سر جھکائے خاموش کھڑا رہا پھر بولا ’’میرے پیارے دوست! میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔ لاؤ اپنا ہاتھ مجھے دو۔ میں تمہارے مشن میں تمہارے ساتھ چلوں گا۔ لیکن تمہیں میری ہر بات ماننا پڑے گی۔ عاطف کو رشید ایک لمحے کے لیے فرشتہ معلوم ہوا۔ اس نے فورا اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ اور یوں عاطف بجائے سیدھے راستے پر چلنے کے، جرائم کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔
انتقام کی آگ نے اس کے اندر کا شریف انسان جلا کر بھسم کر ڈالا۔ اس عرصے میں اس نے ہر جرم کا ارتکاب کیا۔ نشہ بازی، قتل، لوٹ مار، ڈکیتی اور رسہ گیری۔ اس نے اپنے ذہن میں یہی بٹھا  لیا کہ یہ دنیا طاقت والوں کی ہے، جرائم والوں اور دادا گیروں کی دنیا۔ شریف انسانوں کی یہاں کوئی قدر نہیں ہے۔ لہذا وہ جرائم کی دنیا میں سر تا پا دھنستا چلا گیا۔ اب وہ اس قابل ہو گیا تھا کہ سانی جیسے غنڈوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکے۔
ساؤتھ کوریا کی بندرگاہ پورٹ بوسان پر انڈر ورلڈ لوگوں کی بہت اہم میٹنگ تھی۔ جس میں جرائم کی دنیا کے بڑے بڑے نام اکٹھے ہو رہے تھے۔ عاطف بھی اسی سلسلے میں وہاں جا رہا تھا۔ اس اہم میٹنگ میں اسے بھی کوئی اہم عہدہ ملنے کی شنید تھی۔ اگر ایسا ہو جاتا تو عاطف کو اپنے من کی آگ بجھانے کا پورا پورا موقع مل جاتا۔ ابھی عاطف اس بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اسے جہاز کے دوسرے سرے پر کسی کے دوڑنے کی آوازیں آئیں۔ اور ساتھ ہی اس کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ دوسری جانب رشید تھا، اس کا جگری دوست۔۔۔
’’عاطف! گڑ بڑ ہو گئی ہے ہمارے جہاز پر کسی نے حملہ کر دیا ہے۔ حملہ آوروں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ کون ہیں؟ تم اپنا بچاؤ کرو میں ان سے نمٹ لیتا ہوں۔‘‘ ساتھ ہی رابطہ کٹ گیا اور موبائل کی سکرین تاریک ہو گئی۔
عاطف نے کنٹرول روم سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ حملہ آوروں کی تعداد صرف تین ہے لیکن حملہ آور بہت پھرتیلے اور جدید اسلحہ سے لیس ہیں جہاز کا عملہ ان سے مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ اتنے میں گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ اور جہاز کے ایک حصے سے دھواں اٹھتا دکھائی دیا۔ عاطف جلدی سے متاثرہ حصے کی جانب لپکا لیکن اچانک پیچھے سے کسی نے اس پر حملہ کر دیا۔ حملہ جال پھینک کر کیا گیا۔ خوش قسمتی سے عاطف جال میں پھنسنے سے بچ گیا۔ چنانچہ تیزی سے اٹھا اور جست لگا کر ایک ستون کی اوٹ میں ہو گیا ۔ کافی دیر بعد اس کے سامنے سے دو آدمی گزرے۔ ان میں سے ایک ’’سانی‘‘ تھا، اس کا پرانا حریف۔ عاطف نے جلدی سے سامنے پڑا جال اٹھایا اور سانی پر پھینک دیا۔ سانی مچھلی کی طرح تڑپا لیکن پھر جال میں پھنس گیا۔ دوسرے آدمی نے مزاحمت کی کوشش کی لیکن عاطف کی چلائی گئی گولی ایک لمحے میں اسے چاٹ گئی۔
شکار اتنی آسانی سے ہاتھ آ جائے گا، عاطف نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ وہ جس سے بدلہ لینے کے لیے اس نے برسوں گزار دیے تھے اب اس کے ہاتھوں میں قیدی پرندے کی طرح بے بس پڑا زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔ اچانک عاطف کو اپنے دوست بشیر کی بات یاد آئی کہ جب کبھی سانی تمہاری گرفت میں آ جائے اسے مارنے سے پہلے مجھے ضرور یاد کر لینا۔ چنانچہ عاطف نے جلدی جلدی بشیر کا نمبر ملایا اور اسے سانی کے بارے میں اطلاع دی۔ دوسری جانب بشیر نے اسے کسی پُرسکون جگہ بیٹھنے کو کہا اور پھر بات شروع کی۔
’’دیکھو عاطف! میں تم سے جو باتیں کہنے والا ہوں، شاید اس سے پہلے نہ کہی ہوں۔ اور یہ میں پہلے کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ کیونکہ مجھے پتا ہے کہ تم بہت جذباتی آدمی ہو۔ نیز جب تک تم اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو جاؤ، اس وقت تک کسی کی بات سننا تمہیں زہر لگتا ہے۔ لیکن آج تمہیں میری بات غور سے سننا ہوگی۔‘‘
’’میں غور سے سن رہا ہوں، تم اپنی بات جاری رکھو۔‘‘ عاطف نے سپاٹ لہجے میں بات کی تو دوسری جانب سلسلہ گفتگو دوبارہ جاری ہو گیا۔
’’ عاطف! تم نے محض بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے اپنی زندگی کے پندرہ سال ضائع کر دیے۔ تم یہ سارا وقت کسی نیک کام میں بھی گزار سکتے تھے۔ یہ بدلہ نیکی کے ذریعے بھی لیا جا سکتا تھا۔ لیکن تم نے غلط راستے کو چُنا۔ اس سب کے باوجود تمہیں مبارک ہو کہ تم نے آج اپنے دشمن پر قابو پا لیا ہے۔ میں تم سے ایک بات پوچھنا چاہوں گا کہ کیا یہ ضروری ہے کہ دشمن پر قابو پا لینے کے بعد اسے جان سے ماردیا جائے؟‘‘
’’بشیر تم کیا کہنا چاہتے ہو؟ ذرا کھل کر بتاؤ، مجھے پہیلیاں نہ بجھواؤ۔ میرا وقت بہت قیمتی ہے۔‘‘ عاطف نے بے زار لہجے میں کہا تو بشیر بولا
’’میری بات کامطلب واضح ہے میرے دوست!  بس تم احسان کے احسان والا سلوک کرو۔ بڑے ظرف کے لوگ اپنے دشمن پر رحم کرتے ہیں۔ ‘‘

’’یار! یہ تو کہہ رہا ہے۔ بشیر! کیا ہو گیا ہے تجھے؟‘‘

’’ہاں میں کہہ رہا ہوں۔‘‘بشیر نے خلاؤں میں گھورتے ہوئے کہا۔’’کیونکہ میں نے کل ہی ایک مسجد کے ساتھ گاڑی روکی تو وہاں خطبہ چل رہا تھا۔ رکا تو میں سگریٹ لینے تھا لیکن وہ الفاظ جیسے میرے اندر آکر بیٹھ گئے ہیں۔ یار اب دل ہی نہیں چاہتا جرم کرنے کو۔تمہیں پتا ہے انہوں نے ان سے کیا سلوک کیا؟‘‘

’’کس نے کس کے ساتھ؟‘‘ عاطف مزید الجھ گیا۔

 ’’ نبی ﷺ نےانہوں نے اپنے سارے دشمنوں کو معاف فرما دیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ سارے کے سارے دشمن میرے نبی کے پکے اور سچے عاشق بن گئے۔ ان کی نفرت محبت میں بدل گئی۔ خون کے پیاسے ان کی عزت کے رکھوالے بن گئے۔میں چاہتا ہوں تم صرف ایک بار سانی کو سچے من سے معاف کر دو ۔امید ہے کہ وہ بھی تمہاری دشمنی سے باز آ جائے گا۔ کیا تم میری بات سمجھ رہے ہو عاطف؟‘‘
’’ہمم! ٹھیک ہے ۔ ‘‘  عاطف نے مختصر جواب دیا اور سانی کی جانب دیکھا جو مچھلی کی مانند جال میں تڑپ رہا تھا۔ عاطف اس کی پشت کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا اور گویا ہوا:
’’احسان میاں! آج میرا جی چاہتا تھا کہ میں تجھے کچا چبا جاؤں۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب تم نے میرا مکان مجھ سے چھین لیا تھا اور میرے دوستوں کے سامنے مجھے بے عزت کیا تھا۔ لیکن آج مجھے وہ حدیث مبارکہ بھی یاد آ رہی ہے جس میں نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ جو شخص حق پر ہوتے ہوئے اپنا حق چھوڑ دے تو میں جنت کے عین وسط میں اس کے لیے ایک محل کا ضامن بنتا ہوں۔ احسان! میں بہت گنہگار اور جرائم پیشہ  ہوں لیکن اپنے نبی کا امتی ضرور ہوں۔ آج میں بھی اپنے نبی کی پیروی میں تجھے معاف کرتا ہوں۔ جا! اللہ تجھے معاف کرے۔‘‘
یہ کہہ کر عاطف نے جال کو کھولنا شروع کر دیا۔ جب اس نے سانی کی جانب دیکھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں  ہو رہےتھے۔
’’تم رو کیوں رہے ہو میرے دوست؟ عاطف نے حیرانی سے پوچھا تو سانی کہنے لگا۔
’’عاطف! تم کیا سمجھتے ہو، میں مسلمان نہیں ہوں؟؟؟میں بھی پیغمبر ﷺ کی محبت میں، آج سے جرائم کی دنیا کو خیر باد کہہ رہا ہوں۔‘‘ حیرت سے عاطف کی آنکھیں پھیلتی چلی گئیں۔ انتقام کے کھیل میں ’’جیت‘‘ اتنی آسانی سے مل جاتی ہے، اس نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا!!!

 

{rsform 7}