’’روکو روکو یہاں روک دو!‘‘ میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا تو اس نے ایک طرف ٹیکسی پارک کر دی۔
’’یہ لو بھائی!‘‘ میں نے بڑی مشکل سے اسے کرایہ تھمایا کہ ہاتھوں کا رعشہ اب بڑھ گیا تھا۔ علاج تو بہت کرایا لیکن بھائی! بڑھاپا خود ایسی بیماری ہے جس کاتنا علاج کروا لو بڑھتا ہی جاتا ہے۔ 70 سال کی عمر میں میں اپنے ہاتھ سے کھا پی لیتا ہوں اور اپنی ٹانگوں پر چل کر حاجت کر لیتا ہوں ، بس یہ میرے لیے کافی ہے۔ بیٹے کے گھر کی ایک کوٹھڑی میں پڑا رہتا ہوں۔ ملازم دروازے پر ہی کھانے کی ٹرےرکھ جاتا ہے کہ اندر کمرے سے اس کو بدبو آتی ہے۔ بھئی میری بیڈ شیٹ بھی تو کئی مہینوں سے نہیں بدلی۔ نہ ہی کونوں کھدروں کے جالے کسی نے اتارے ہیں۔ جب اولاد کے دل پر جالے پڑ جائیں تو باپ کے کمرے میں لگے جالے اسے کہاں نظر آتے ہیں؟
"بزرگو! دروازہ بند بھی کردو۔ یونہی کھڑے رہو گے کیا؟ جانا نہیں تھا تو ٹیکسی کیوں رکوائی تھی۔ بیٹھو دوبارہ۔ جہاں کہو گے چھوڑ دوں گا۔"
ٹیکسی ڈرائیور کی رحم بھری تقریر مجھے دوبارہ حقیقت میں لے آئی۔
"ارے نہیں بس یہیں اترنا تھا۔ تمھارا شکریہ بیٹا!" یہ کہہ کر میں نے ٹیکسی کا دروازہ بند کیا اور لاٹھی ٹیکتا ہوا ’’شاہد سویٹس‘‘ کے جلتے بجھتے سائن بورڈ کے نیچے آکھڑا ہوا۔
آہ! "شاہد سویٹس"!! کون جانتا ہے کہ مٹھائیوں کی اس مشہور و معروف چین کا بانی میں تھا۔ شاہد محمود آفانی! لیکن صرف ایک ۔۔ صرف ایک غلط فیصلے نے مجھے دولت و شہرت کی بلندیوں سے پاتال میں لا پٹخا تھا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’شاہد صاحب! کیا روز روز کے جھگڑوں میں پڑے رہتے ہیں۔ اگر آپ اپنی ڈیری بنا لیں تو یہ ریٹ بڑھانے اور گھٹانے کی شکایت بھی کسی سے نہیں کرنی پڑے گی۔‘‘
میرے دیرینہ کاروباری دوست سیٹھ ارسلان نے ایک دن مجھے مشور ہ دیا۔
’’ہمم! میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔ لیکن ڈیری بنانے کے لیے کافی سرمایہ چاہیےجو فی الوقت تو میرے پاس نہیں۔‘‘
میں نے پرسوچ انداز میں کہا۔ یہ ٹھیک تھا کہ میری مٹھائیوں کی دکان اس وقت تین شہروں میں کھل چکی تھی اور منافع پر منافع کما کر دے رہی تھی لیکن خرچے بھی کچھ کم نہیں تھے۔ ایسی صورتحال میں اگر میں ڈیری بنانے کا سوچتا بھی تو مجھے اپنے پاس سے سرمایہ ڈالنا پڑتا۔
’’لو! سرمایے کی کیا بات ہے شاہد صاحب! آپ بڑے اور کاروباری آدمی ہیں۔ ایک خط لکھیں بینک کو اور بینک والے خود آپ کے پاس کروڑوں لیے چلے آئیں گے۔‘‘ سیٹھ ارسلان نے مسکراتے ہوئے مونچھوں کو تاؤ دیا تو میں بھی مسکرانے لگا۔ واقعی مشورہ تو صحیح تھا!
لیکن جب میں نے گھر میں بات کی تو ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ دادا جان گرجتے رہے۔
’’خدایا سود ی کمائی آئے گی ہمارے گھرانے میں ؟ سوچا بھی نہیں تھا کہ تو حرام میں پڑ جائے گا ۔ ہوش کےناخن لے شاہد پتر۔ ‘‘
ابو کی ڈانٹ پھٹکار الگ تھی۔’’شاہد! دودھ میں ایک قطرہ بھی بیشاب کا ڈال دو توسارا دودھ گندا اور حرام ہو جاتا ہے۔ یہ کیا سکیم تو نے سوچی ہے کہ بینک سے قرضہ لے گا۔ دیکھ بیٹا! تو نے ڈیری کھولنی ہے تو اتنی جلدی مت کر۔ جب منافع زیادہ ہونے لگے تو کھول لینا۔ ورنہ عمر سنز والوں سے تیرا ایگریمنٹ تو ہے ہی سال بھر۔پھر دودھ اور گھی کے ریٹ کی کیا پریشانی ہو گئی اچانک۔‘‘
دادی ناراض تھیں۔
’’باؤلا ہوا کیا۔ بینک سے سود پر قرض لے گا۔ پھر اپنی شکل نہ دکھائیو۔ مجھ بڑھیا کو حرام کھلائے گا اس عمر میں ؟ آئے ہائے یہ دن بھی دیکھنا تھابہو! ساری تمھاری تربیت میں کمی ہے ورنہ ہمارا خون ایساکہاں تھا۔‘‘
امی کہنے لگیں۔ ’’شاہد! اتنی ایمرجینسی میں کیوں قرضہ لینے لگے ہو۔ تم ایسا کرو میرے زیورات لے لو اور جہاں چاہے خرچ کر لو۔ لیکن یہ سودی لین دین نہ کروبیٹا! سود تو جہنم میں لے کر جانے والا ہے۔‘‘
د و تین دن اسی موضوع پر باتیں ہو تی رہی۔ میں چپ چاپ سب کی سنتا رہا۔ سب کو لگا کہ مجھے سمجھ آ گئی ہے۔ حالانکہ میں تو اگلے دن ہی سیٹھ ارسلان کے ساتھ جا کر بینک سے معاہد ہ کر آیا تھا اور یوں بیس کروڑ کا چیک میری جیب میں تھا۔خدا جانے یہ چیک تھا یا بے سکونی کا پروانہ ۔ کیونکہ ایک عجیب سی بے چینی میرے دل میں بیٹھ گئی تھی۔ کسی کام میں سکون نہیں مل رہا تھا۔ لیکن میں خوش تھا کہ میرا ایک خواب تعبیر ہونے جارہا تھا! اپنا ڈیری فارم جہاں سے میں خالص دودھ اور دہی کی پیداوار کر کے مٹھائیوں کے کاروبار کو چار چاند لگا سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر والوں کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے اس بار میری مخالفت نہیں کی۔ بس ابا نے بات چیت بہت کم کر دی۔ دادی بھی خاموش خاموش رہنے لگیں۔ امی بھی بس گھر کے کاموں میں مصروف رہتیں۔ بس کبھی کبھی ایک گہری سی نظر مجھ پر ڈال لیتیں تو میں الجھ جاتا۔ پتہ نہیں کیا کہنا ہے انہوں نے۔ کہہ کیوں نہیں دیتیں۔ لیکن میرے پاس سوچنے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہوتا تھا۔ ڈیری فارم شروع ہو چکا تھا ۔ میں نے چکوال سے بیس صحت مند اور خوبصورت گائیں اور بھینسیں منگوائی تھیں۔اپنی ہر برانچ میں لکھ کر لگا دیا تھا کہ ہماری مٹھائیاں خالص دودھ اور دیسی گھی سے تیار کردہ ہیں۔ میرے خاص کُک پہلے ہی مٹھائیوں کے ماہر تھے اور جب انہیں خالص دودھ اور گھی ملنا شروع ہوا تومٹھائیوں کے ہر ہر آئٹم کی لذت دوگنی ہو تی گئی۔ یوں گاہکوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا تھا۔ کراچی اور راولپنڈی سے اچھے منافع کی خبریں آتیں تو میرا بہت دل کرتا گھر میں خوشی مناؤں لیکن کس کے ساتھ۔ سبھی تو غیر اعلانیہ طور پر میرے سے ناراض تھے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ سب وقتی منافع تھا۔ جو سودی قرض میں نے لیا تھا اس کی نحوست مجھے کہاں پہنچانے والی ہے یہ میرے خیالوں میں بھی نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر ایک دن ابا ایسے سوئے کہ پھر اٹھ نہ سکے۔ان کی سالوں کی خاموشی خاموشی ہی رہی اور وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ میرے دل کو جھٹکا سا لگا لیکن پھر میں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا بلکہ اور زیادہ مصروف کر لیا۔ اب میں گھر بھی کم کم آتا تھا۔ کراچی ہی میں ایک کاروباری فیملی سے میری شادی ہو گئی تھی۔ بیوی کی فرمائش پر کراچی ہی میں اسےگھر لے دیا تھا۔ سو لاہور آنا توبس اب کام سے ہی ہوتا۔ ہاں کچھ دیر کے لیے گھر بھی آتا۔ امی سے ملتا۔ انہیں کچھ رقم تھماتا اور فلائٹ لیٹ ہو رہی ہے کا سچا بہانہ کر کے وہاں سے واپس کراچی چلا آتا۔
پھر خبر آئی کہ امی چل بسیں۔ محلے والوں نے مجھے اطلاع دی تو میں بھاگا چلا آیا۔ یوں امی بھی چلی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی کے انتقال کے کچھ عرصے بعد اچانک ڈیری فارم نے منافع دینا چھوڑ دیا۔ ہوا یوں کہ ایک ایک کر کے گائیں بیمار ہو کر مرتی چلی گئیں اور دودھ دہی اور دیسی گھی کی پیداوار میں خاطر خواہ کمی آ گئی۔ میں نے بہت کوشش کی ، دعائیں مانگیں۔ ختم کروائے اور مسجد وں میں قرآن خوانی بھی ۔ لیکن جو زوال مجھے اور میرے کاروبار کو آنا تھا اس نے آنا ہی تھا اور اسے کوئی نہ روک سکا۔
میں نے ڈیری فارم کے نقصان کو پورا کرنے کے لیے بینک سے مزید قرضہ لے لیا لیکن اس سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔ جو نئی بھینسیں لی تھیں وہ بھی بیمار پڑ گئیں ۔ اب میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ میں اس فارم کو بند کر دوں۔ میں کافی زیادہ نقصان اٹھا چکا تھا اور مٹھائیوں کا آدھے سے زیادہ منافع بھی ڈیری فارم پر لگا چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرضہ بڑھتےبڑھتے اصل رقم سے دوگنا چوگنا ہوتا گیا ۔ بینک والوں کا آخری نوٹس آیا تو میرے پاس کوئی چارہ نہ رہا۔ میں نے کراچی والی شاپ بیچ دی۔ پھر راولپنڈی والی برانچ بکی اور آخر میں لاہور والی مین دکان بھی قرضے کی مد میں چلی گئی۔
بینک کا قرضہ لوٹاتے لوٹاتے میں آخر کار دیوالیہ ہو چکا ہوں۔بیوی مجھے چھوڑ کر دارِ فانی کوچ کر گئی ہے اور میرے اکلوتے بیٹے کو میرے کاروبار سے کوئی سروکار نہیں ۔ وہ کراچی میں سرکاری نوکری کرتا ہے اور اسی میں خوش اور مگن ہے ۔جب میرا لاہور والا مکان بھی بک گیا تو مجھے مجبوراً بیٹے کے پاس کراچی آنا پڑا۔ اس نے کوئی خاص خوشی کا اظہار نہ کیا۔ بس رہنے کے لیے ایک چھوٹا ساکمرہ دے دیا ہے جو بے حدٹھنڈااور تاریک سا ہے ۔خیر! مشکل سے ہی سہی گزارہ کر رہاہوں۔ ایک دن چلا جاؤں گا تو تب شاید بیٹے کو خیال آجائے لیکن کیا فائدہ پھر!
شاہد سویٹس کی دکان اب کوئی اورچلاتا ہے۔نیو شاہد سویٹس کے نام سے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔پتہ نہیں کون لوگ ہیں۔چلو! اگر کوئی میرے نام سے منافع کما رہا ہے تو کمانے دو۔ میرا کیا جاتا ہے۔ بس سوچتا ہوں پتہ نہیں کیا معیار ہے ان کی مٹھائیوں کا ۔ عرصے سے میٹھا نہیں کھایا ۔ شوگر کا مریض ہوں۔ بیمار پڑ گیا تو بیٹا اور ناک بھوں چڑھائے گا اس لیے پرہیز ہی کرتا ہوں۔
اب اکثر سوچتا ہوں کاش وہ ڈیری فارم نہ کھولتا اور نہ یہ سب کچھ ہوتا۔ میں نے سود پر قرضہ کیوں لیا۔اور پھر لیتا ہی کیوں چلا گیا۔ میری عقل پر پٹی کیسے بندھی۔ مجھے حلال اور حرام میں فرق کیوں نظر نہ آیا ۔ میں نے ابا کی بات کیوں نہ مانی۔میں نے کیوں حلال منافع میں حرام کی آمیزش کی۔ یہ کیوں کی Chain کافی طویل ہوتی جاتی ہے لیکن میرے پاس ایک بھی ’’کیوں‘‘ کا جواب نہیں۔ اب تو اکثر بہت سی باتیں بھولنے لگا ہوں ہاں ایک آواز ابھی بھی مجھے ویسی ہی یاد ہے جیسی کہ وہ تھی۔ اماں کی آواز۔
’’بیٹا! سودی لین دین تو جہنم میں لے جانے والا ہے۔‘‘
آئے کاش! اماں دیکھ پاتیں میں تو ابھی سےجہنم میں آ گیا ہوں جہاں سونے کے بستر پر نیند کی بجائے کانٹے ہیں۔ جہاں کوئی حال پوچھنے والا نہیں ۔ سگی اولاد کے رویوں میں بے رخی ہے اور دل میں بے سکونی اور پچھتاوے کی آگ !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشادالٰہی ہے۔’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سود کا جو حصہ بھی رہ گیا ہو اس کو چھوڑ دو، اگر تمہارے اندر ایمان ہے ۔اگر تم سود کو نہیں چھوڑو گے ، تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو یعنی ان کے لیے اللہ کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ،278/279)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سود کے ستر درجے ہیں، اور ان میں سب سے ہلکا درجہ اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرنے کے برابر ہے۔ (مشکوۃ المصابیح ، باب الربو، ص246)
(مرکزی خیال سچے واقعے سے ماخوذ ہے۔ کرداروں اور دکان کے نام تبدیل کیے گئے ہیں)
{rsform7}