سب کچھ اچھا جا رہا تھا لیکن عادل کو نہ جانے کیوں بے چینی سی تھی۔ آج وہ غازی کے بےحد اصرار پر پارٹی میں شریک ہوا تھا۔ اس وقت وہ چاروں دوست ایک فلیٹ میں موجود تھے۔ تاش اور وی سی آر کا انتظام پہلے سے موجود تھا اور کھانا انہوں نے آرڈر کر کے منگوا لیا تھا۔
عادل بار بار جانے کے لیے اٹھتا تو دوست اس کو بٹھا لیتے۔ اچانک پولیس کے سائرن کی آوا ز سنائی دینے لگی۔ چاروں ہڑبڑا گئے۔ انہوں نے جلدی سے اٹھ کر کھڑ کی سے نیچے دیکھا۔
پولیس والے اب گاڑیوں سے اتر کر بلڈنگ کاگھیراؤ کر رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’عادل ! کہاں تھے تم اتنی دیر سے؟ ‘‘ شہریار نے غصے سے پوچھا۔
وہ بہت دیر سے اس کا انتظا ر کر رہے تھے۔
’’وہ ۔۔ بھائی! میں ۔۔۔ میں گروپ سٹڈی کر رہا تھا دوستوں کے ساتھ۔‘‘ عادل نے بوکھلا ہٹ میں جواب دیا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بھائی اس وقت تک جاگ رہے ہوں گے۔ وہ تو فیکٹری سے اتنے تھکے ہوئے آتے تھے کہ کھانا کھاتے ساتھ ہی سو جاتے تھے۔
’’جھوٹ مت بولو عادل! تم نے پھر غازی سے دوستی کر لی ہے۔ میرے دوست عبداللہ نے خود تمھیں اس کے ساتھ بائیک پر جاتے دیکھا ہے۔ ‘‘
’’اف! ایک تو یہ بھائی کے دوست بھی! ہر وقت کی جاسوسی!‘‘ عادل نے غصے سے دل ہی دل میں سوچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عادل اور شہریار کے والد صاحب عرصہ ہوا فوت ہو چکے تھے۔ دو ہی بھائی تھے۔بڑے بھائی شہریار نے پڑھائی چھوڑ کر ایک فیکٹری میں ملازمت کر لی ۔ عادل کو پڑھنے کا شوق تھا۔ وہ شروع ہی سے پڑھائی میں تیز تھا۔ شہریار کی بھی یہی خواہش تھی کہ وہ خود تو پڑھ نہیں پائے لیکن عادل کو خوب پڑھائیں گے۔ اس کے لیے وہ دن رات محنت کر رہے تھے۔
کچھ ماہ پہلے یونیورسٹی میں عادل کی دوستی کچھ نادان اوربگڑے ہوئے لڑکوں کے ساتھ ہو گئی ۔ یہ غازی ، حاشر اور عارف تھے اور پورے کیمپس میں غازی گروپ کے نام سے مشہور تھے۔ چھوٹی موٹی چوری کرنا یا سڑکوں پر عورتوں سے پرس چھیننا ان کے لیے معمول کی بات تھی۔ امیر گھرانوں سے تعلق تھا سو دو تین دن میں جیل سے رہا ہر کر باہر آجاتے ۔ پروفیسرز بھی ان کو کچھ کہتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگاتے۔
شہریار بھائی کو معلوم ہوا تو انہوں نے عادل کو بہت سمجھایا ۔
’’عادل! ابو کا خواب تھا ہم دونوں بھائی انجنئیر بنیں۔ میں ان کا یہ خواب پورا نہیں کر سکا لیکن تم ضرور پورا کرنا۔ اس کے لیے تمھیں راستے میں آنے والوں کانٹوں سے اپنا دامن بچاکر گزرنا ہو گا۔ اگر تم نےان برے دوستوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نہ چھوڑا تو تمھیں ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔‘‘
بڑے بھائی کی باتیں عادل کے دل کو لگتیں لیکن نہ جانے کیوں وہ خود کو روک نہیں پاتا تھا۔ کچھ دن وہ غازی گروپ دور رہتا پھر اس کا دل ان کی طرف کھنچنے لگتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کی بارغازی گروپ نے ایک کوٹھی میں ڈاکہ ڈالنے کا پروگرام بنایا تھا۔ یہ واردات کامیاب بھی رہی ۔ دو دن بعد وہ اسی کامیابی کا جشن منانے ایک فلیٹ میں موجودتھے۔ انہوں نے فون کر کے عادل کو بھی بلا لیا تھا اور اب اسے ساری تفصیل مزےلے کر بتا رہے تھے۔
ابھی عادل سوچ ہی رہا تھا کہ بس اب چلتا ہوں اپنے گھر ۔ بہت دیر ہو گئی، کہ اچانک سائرن کی آواز گونجنے لگی۔ انہوں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔
’’پولیس! ‘‘ غازی کے منہ سے نکلا۔
’’پولیس آ گئی یار! اب کیا کریں۔‘‘ تینوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔
عادل کی ٹانگوں میں سے جیسے جان نکل گئی تھی۔ اسے بھائی جان کی باتیں یاد آنے لگیں اور وہ بے جان سا کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واردات تو انہوں نے بخوبی کر لی تھی لیکن کوٹھی کے گیٹ پر لگے سی سی ٹی وی کیمرے ان کی ایک ایک تصویر محفوظ کر چکے تھے۔ یوں پولیس ان کی مخبری لیتے لیتے آخر ان تک پہنچ ہی گئی تھی۔
عادل فرش پر دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا جب اس نے جیل کی سلاخوں میں سے شہریار بھائی کو آتے دیکھا۔ وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور سلاخوں کے قریب آ گیا ۔
’’عادل! تم نے میرا کہا نہ مانا اور آخر یہ دن دیکھنا پڑا تمھیں۔ کتنا سمجھایا میں نے تمھیں! ان لوگوں سے دوستی مت رکھو لیکن تم تو بس! اب بھگتو یہاں بیٹھ کر۔ ‘‘ شہریار بھائی کی آواز میں غصہ افسردگی اور نہ جانے کیا کیا تھا۔ عادل سے نظریں نہ اٹھائی گئیں۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ میں اس واردات میں ان کے ساتھ نہیں تھا لیکن کیا فائدہ۔ غازی ، حاشراور عارف تینوں نے ہی اپنے بیان میں کہہ دیا تھا کہ عادل بھی ہمارا ساتھی ہے اور واردات میں بھی یہ ہمارا شریک رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہریار بھائی کے فیکٹری مالکان نے شہریار بھائی کے بار بار کہنے پر ضمانت کروادی تھی لیکن ساتھ ہی انہیں بھی نوکری سے فارغ کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک ڈاکو کے بھائی کو اپنی فیکٹری میں ملازم نہیں رکھ سکتے۔ عادل گھر آچکا تھا لیکن بدنامی کے جو داغ اس کے کردار پر لگ گئے تھے وہ پوری زندگی کے لیے سبق کے طور پر کافی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’اچھے دوست اور برے دوست کی مثال کستوری اٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی مانند ہے،کستوری اٹھانے والا یا تو آپ کو ہدیہ میں دے گایا آپ اس سے خرید لیں گے یا کم از کم اچھی خوشبو تو پائیں گے،جبکہ بھٹی جھونکنے والا آپ کے کپڑوں کو جلا دے گا یا کم از کم آپ اس سے بدبوپائیں گے۔‘‘(متفق علیہ)