دوستی یا  نادانی

          Print

’’دیکھو فہد! فیس بک پر انجان لوگوں سے دوستی کرنا ٹھیک نہیں۔ تم میری فرینڈ لسٹ دیکھو۔ میرے پاپا میرے کزنز اور میرے کچھ کلاس فیلوز ہیں۔ جبکہ تمھاری فرینڈ لسٹ نت نئے لوگوں سے بھر گئی ہے جنہیں تم ٹھیک سے جانتے بھی نہیں۔‘‘

یاسر اپنے دوست فہد سے فیس بک پر چیٹ کر رہا تھا۔ اصل میں وہ آج جیسے ہی لاگ ان ہوا تو ا س نےدیکھا ۔ فہد کے تین نئے دوست بنے تھے۔ یہ آج کی بات نہیں تھی۔ 

تقریبا روز ہی فہد نئے نئے لوگوں کو ایڈ ریکوسٹ بھیجتا رہتا اور کئی انجانے لوگ اس کی فرینڈ لسٹ میں آجاتے۔جبکہ یاسر فیس بک کے مثبت استعمال کا قائل تھا۔ وہ اسے وقت گزاری کا ذریعہ نہ سمجھتا تھا۔ اس نے کئی اچھے اچھے مذہبی تعلیمی اور ادبی پیجز لائک کئے ہوئے تھے۔فرینڈز بنانے میں بھی وہ بے حد محتاط رہتا تھا۔ اس کی فرینڈ لسٹ میں زیادہ تر اسکے رشتہ دار اور کلاس فیلوز تھے۔

فہد نے بے زاری سے اس کا میسج پڑھا  اور جواب دیا۔ ’’یار! ایک تو تمھاری نصیحتیں ہی ختم نہیں ہوتیں۔ اس میں احتیاط کرنے کی کون سی بات ہے۔ فیس بک ہی تو ہے۔   دیکھو آج میرا ایک نیا دوست بنا ہےگوجرانوالہ سے۔فراز نام ہے ۔  آئی کام  کر رہا ہے۔ کل ہماری کافی گپ شپ ہوئی۔تم اس کا پروفائل دیکھ لو۔  اچھا بندہ ہے یار۔ اب اس پر تو شک نہ کرو ۔‘‘  

یاسر کو ہنسی آ گئی۔ ’’اچھا بھئی! نہیں کرتا شک۔ میں چلا۔ تم بات کرو اپنے نئے دوست سے۔ مجھے تو صبح جلدی اٹھنا ہے۔‘‘ یاسر نے یہ میسج سینڈ کیا اور لاگ آف ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

’’مجھے فراز نے اپنے شہر میں انوائٹ کیا ہے۔ کہ رہا تھا مشہور کرکٹر محمد عامر سے بھی ملواؤں گا۔ ‘‘ صبح جب یاسر سو کر اٹھا تو فہد کا میسج آیا ہوا تھا۔

’’دیکھو!  اجنبی لوگوں سے ملنے جلنے میں احتیاط کرنا چاہیے۔ تم ایسا کرو کہ جاتے وقت فہیم بھائی جان کو بھی ساتھ لیتے جانا۔‘‘ یاسر نے  کہا۔

’’ بھائی جان! اور وہ بھی میرے ساتھ جائیں۔ ناممکن! کل ان کا viva ہے اور تیاری میں مگن ہیں۔  اوربھئی میں خود بھی جا سکتا ہوں۔ بچہ تو نہیں ہوں۔‘‘  فہد نے  منہ بنا کر جواب دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

’’ہیلو! آپ فراز بول رہے ہیں؟ میں فہد ہوں۔ فیس بک پر آپ سے بات ہوئی تھی۔ ‘‘ فہد کے لہجے میں جوش تھا۔  وہ آج ہی لاہور سے گوجرانوالہ پہنچا تھا۔

’’جی  میں فراز ہوں۔ کیسے ہیں آپ ؟ ‘‘جواب میں فراز نے پوچھا۔ کچھ ہی دیر میں دونوں کی بے تکلفی ہو گئی۔ فراز بلا شبہ نہایت خوش اخلاق انسان تھا۔

فراز نے فہد کو ڈائیو کے اڈے سے لیا اور ایک بڑے ہوٹل میں جا پہنچا۔

’’بیٹھو یار! اصل میں میں نے سوچا پہلے اچھا سا کھانا کھاتے ہیں پھر محمد عامر سے ملیں گے۔ وہ یہیں آنے والے ہیں کچھ ہی دیر میں۔ آخر میں تمھیں اپنے گھر لے جاؤں گا۔ دیکھو بھئی ہوٹل وغیرہ میں نہیں ٹھہرنا اوکے۔ دوستی کا اتنا تو حق بنتا ہے یار!‘‘ فراز نے نہایت اپنائیت اور بے تکلفی سے کہا تو فہد کے دل سے سارے خدشات دور ہوتے چلے گئے۔

’’ٹھیک ہے۔ جیسے  تم مناسب سجھو۔ ‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

وہ اس وقت گوجرانوالہ کے مشہور ہوٹل میں کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے۔فراز نے کافی ساری  ڈشزآرڈر کر دی تھیں۔

کھانا کھاتے ہوئے فرازکی نظر فہد کے آئی فون پر گئی تو وہ خوشدلی سے بولا۔ ’’واہ! یار کیا فون ہے ۔ بس میں بھی آجکل میں آئی فون ہی لینے والا ہوں۔ ‘‘ اتنے میں فراز کے موبائل پر بیل ہوئی۔ اس نے ہیلو کی تو دوسری طرف اس کا دوست تھا۔

’’ہیلو!۔۔اچھا!۔۔ دس منٹ تک ؟۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ ہاں ہاں ہم یہیں ہیں۔‘‘ اس نے ایک آدھ منٹ بات کر کے فون رکھ دیا۔

فہد نے سوالیہ انداز میں اس کی جانب دیکھا تو وہ مسکرا کر کہنے لگا۔ ’’میرا دوست تھا۔ کہ رہا تھا محمد عامر ہوٹل کی طرف آنے کے لیے نکل چکے ہیں۔  پانچ دس منٹ تک پہنچنے ہی والے ہوں گے۔ ‘‘

۔۔۔۔۔

آخر بیٹھے بیٹھے اکتا کر فہد نے پہلو بدلا۔ پانچ دس منٹ تو کیا پون گھنٹا ہونے کو تھا۔  اس نے فراز سے پوچھا۔ ’’یار تمھارا  دوست تو کہ رہا تھا پانچ دس منٹ تک  آجائیں گے۔ لیکن اب۔۔‘‘

’’ یار! پتہ نہیں کیوں دیر کر رہے ہیں۔ وہ اصل میں۔۔ میرے پاس بیلنس بھی نہیں ہے کہ کال کر کے پوچھ سکوں۔۔‘‘ فراز نے کچھ ججھکتے ہوئے کہا۔

’’ارے  یار میرا فون لے لو۔ اس میں ججھک کی کیا بات ہے۔  دوستی کی ہے تو پھر یہ باتیں نہیں چلیں گی۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے فہد نے  اپنےآئی فون کا لاک کھولا اور فراز کے سامنے رکھ دیا۔

فراز نے فون اٹھا کر اپنے دوست کا نمبر ملایا۔ کچھ بیلز جانے کے بعد نمبر مل گیا۔

’’ہیلو! یار کدھر رہ گئے ہو۔ کب سے۔۔کیا؟۔۔۔۔  ہیلو! کب  آرہے ہو۔۔ ہیلو ! ہیلو! آواز نہیں آرہی ۔ٹھہرو! ایک منٹ! ‘‘

یہ کہتے ہوئے فراز اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔ ’’یار فہد یہاں سگنلز ٹھیک نہیں آرہے۔ میں ذرا باہر جا کر بات کرتا ہوں۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ہیلو ہیلو کرتا ہوا باہر چلا گیا۔

چند منٹ تک تو فہد یہ سوچتا رہا کہ وہ محمد عامر سے کیا کیا باتیں کرے گا لیکن اچانک اسے کچھ خیال آیا۔ وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ یہ فراز کدھر رہ گیا ہے۔میرا فون بھی اس کے پاس ہے۔ یہ سوچ کر وہ باہر نکلنے لگا تو ویٹر آگیا۔ ’’سر! پلیز بل پے کر دیجیے۔ ‘‘

’’جی!‘‘ فہد ہکا بکا ویٹر کو دیکھنے لگا۔’’بل ۔۔ بل توفراز صاحب پے کریں گے۔ وہ یہیں باہر لان تک گئے ہیں کال کے لیے۔ ‘‘

’’سر ! وہ تو ابھی ابھی ایک گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے ہیں۔ ‘‘

’’کیا؟؟‘‘ فہد کا سر گھومنے لگا۔  ویٹر سوالیہ نشان بنا سامنے کھڑ ا تھا۔ اس نے خود کو سنبھالا اور والٹ نکال کر بل  پےکر دیا۔یہ کیسے ہو سکتا ہے۔یہ سوچتے ہوئے وہ  ہوٹل سے باہر نکل کر فراز کو تلاش کرنے لگا۔ لیکن اس کا دور دور تک کوئی نام و نشا ن نہیں تھا۔

انجانے شہر میں وہ کیا کرتا کہاں ڈھونڈتا اس لٹیرے کو۔ ابھی تو وہ  ٹھیک سے فراز کو پہچانتا بھی نہ تھا۔ اس کی شکل فیس بک پر لگائی گئی تصویروں سے بالکل مختلف تھی۔  

یہ شکر تھا اتنے مہنگے ہوٹل کا بل دینے کے باجود واپسی کے ٹکٹ کے  پیسے اس کے والٹ میں  موجودتھے۔ اس نےواپسی  کاٹکٹ کرایا اور لاہور جانے والی بس میں بیٹھ گیا۔ واپسی کے سفر میں اس کے ذہن میں وہی فراز آرہا تھا جو اپنی پروفائل پِک میں ایک خوبصورت سی مسکراہٹ لیے یونیورسٹی کے گیٹ کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس کا اصل روپ اتنا گھناؤنا ہو گا یہ فہدنے سوچا بھی نہیں تھا۔ فیس بک پر کی گئی اس انجانی دوستی میں نہ صرف اس کا قیمتی موبائل فون  اور ایک بڑی رقم  چھن گئی تھی بلکہ اس کو زندگی کا ایک اہم  سبق بھی مل چکا تھا۔ 


{rsform 7}