’’احمد بیٹا آج مجھے بازار کام سے جانا ہے تو تم مجھے لے جاؤ گے؟‘‘  خدیجہ بیگم نے احمد سے کہا۔ وہ ابھی ابھی سو کر اٹھا تھا۔

’’امی! آپ کو پتہ ہے  مجھے شام میں دوستوں کے پاس جانا ہے آپ سعاد کو بولیں وہ آپ کو بازار لے جائے گا ۔‘‘
’’ بیٹا سعاد پر تو ویسے ہی سارے گھر کا بوجھ ہے ۔ وہ ابھی بل جمع کر وانے گیا ہے پھر سبزی لیتے ہوئے آئے گا اور شام میں تمہارے ابو کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جائے گا۔ تم فارغ ہو کالج سے واپس آکر سارا وقت آرام اور فالتو وقت ضائع کر دیتے ہو کچھ ذمہ داری تم بھی سنبھالو بیٹا !‘‘ خدیجہ بیگم نرمی سے کہتی چلی گئیں۔ وہ چاہتی تھیں اب احمد بھی گھر کی ذمہ داریوں میں سعاد یعنی ان کے بھانجے کا ہاتھ بٹائے۔
’’امی جان اگر سعاد گھر کے کچھ کام کاج کر دیتا ہے تو ہم پر کون سا احسان کر تا ہے۔ ہم نے اس کو اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے ورنہ آج وہ کسی یتیم خانے کے دھکے کھا رہا ہو تا۔

 

اُس کو تو سب منحوس بولتے ہیں اس کے پیدا ہوتے ہی پھوپھی جان کا انتقال ہو گیا اور پھر پھوپھا جان کا ایکسیڈنٹ اس کو تو پورے خاندان میں کوئی بھی رکھنے کو تیار نہ تھا یہ تو میرے بابا جان کا احسان ہے جو اس کو اپنے گھر لے آئے اور تعلیم سے لے کر ہر چیز کے اخراجات بر داشت کر رہے ہیں اگر وہ گھر کے کام کر دیتا ہے تو کون سی بڑی بات ہے ۔‘‘ احمد یونہی دل کی بھڑاس نکالتا تھا۔ جب دیکھو امی سعاد کی تعریف کر رہی ہیں۔ ابو اسی کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ میری تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے اس گھر میں۔ اس نے جل کر سوچا۔
’’احمد نہ جانے تمہاری سوچ کب بدلے گی یہ سب فضول کی باتیں ہیں کوئی انسان بھی منحوس نہیں ہوتا ہے اللہ کے نزدیک سب برابر ہوتے ہیں ۔‘‘ خدیجہ بیگم نے رسان سے کہہ کر بات ختم کر دی۔ وہ کئی بار احمد کو سمجھا چکی تھیں لیکن اس کے دل میں سعاد کے لیے بدگمانی ختم نہیں ہو پائی تھی۔
اندر آتے ہوئے سعاد کے کانوں میں یہ تمام گفتگو پڑ چکی تھی لیکن یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ احمد کی یہ نفرت بھری باتیں اس نے بچپن سے ہی سنی تھیں مگر ماموں جان اور ممانی جان کی محبت اور شفقت کے آگے وہ کچھ بول ہی نہ پاتا تھا اور احمد تھا کہ اُس کو اپنے امی بابا کا کچھ خیال نہ تھا۔
سعاد پڑھائی بھی بہت دل لگا کر کر تا تھا ۔ سعاد اللہ پاک سے راتوں کو رو رو کر اللہ سے بہت دعائیں کر تا تھا کہ اللہ پاک اُس کی مدد فرمائے۔ایک روز سعاد جب کالج پہنچا تو اُس کو کالج کے پرنسپل نے بلایا اور کہا۔

’’سعاد تم کو مبارک ہو بیٹا ۔امتحان میں اچھے نمبر لینے پر کالج نے تمھیں اسکالر شپ دیا ہے ۔ اب تمھیں کالج کی فیس نہیں دینی ہوگی ۔‘‘ یہ خبر سُن کر سعاد کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔اس نے گھر آکر سب سے پہلے یہ خبر خدیجہ بیگم کو سنائی۔ وہ بھی بہت خوش ہوئیں اور سعاد کو بہت دعائیں دیں۔ گھر میں سعاد کے سکالر شپ پر سبھی خوش تھے سوائے احمد کے۔ اندر ہی اند ر وہ جل بھن کر رہ گیا۔اس نے جھوٹے منہ بھی سعاد کو مبارکباد نہ دی ۔

وقت گزرتا گیا اور سعاد کی پڑھائی بھی مکمل ہوگئی اور احمد کی بھی ۔ ماموں کی خواہش تھی کہ وہ اُن کا بزنس سنبھال لے مگر یہ بات احمد کو ہر گز گوارہ نہ تھی اور سعاد بھی یہ بات جانتا تھا۔ اس لیے سعاد نے ملک سے باہر نوکری کی درخواستیں بھیجیں اور اُن میں سے ایک جگہ پر سعاد کو نوکری بھی مل گئی ۔ اُس نے یہ بات ماموں جان کو بتائی اور انتہائی ادب سے باہر جانے کی اجازت کی اجازت طلب کی گو کہ ماموں جان کو سعاد کے ملک سے باہر جانے کا بہت افسوس تھا مگر وہ بھی یہ جانتے تھے کہ سعاد کی خوشی اسی میں ہے اور انہوں نے سعاد کو اجازت دے دی ۔ سعاد جاب کرنے کے لیے دبئی چلا گیا ۔احمد نے بھی اپنے بابا کے آفس جانا شروع کر دیا ۔ پہلے دن ارشد صاحب نے احمد کو سمجھایا۔

’’ہم جو فلیٹ بناتے ہیں اُس میں بہت ایمان داری سے سریہ ، سیمنٹ ، بجری لگاتے ہیں اور اگر ان سب کا خیال نہ رکھا جائے تو عمارت گرنے کا ڈر ہو تا ہے اور بد نامی الگ ہوتی ہے۔اس لیے چند ٹکوں کی خاطر ایمان نہ بیچنا ۔ ایمان داری سے پراجیکٹ بنانا۔ ‘‘
احمد کو تو اپنے بابا کی باتوں کی پر واہ ہی نہ تھی اور وہ ہی ہو گیا جس کا ڈر تھا۔ احمد نے ٹھیک طریقے سے اپنے پروجیکٹ کی دیکھ بھال نہ کی اور جو عمارت بنائی وہ گر گئی۔ اللہ کا کرم ہوا کہ اُس وقت کوئی مزدور اندر موجود نہ تھا ۔ مگر یہ معاملہ سنگین تھا ۔ پولیس  احمد کو پکڑ کر لے گئی ۔کمپنی بند ہو گئی۔  

ارشد صاحب نے ساری زندگی کی کمائی جرمانے میں بھر کر احمد کی سزا کو معاف کروایا ۔ مگر اب ان کے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا ۔ بلڈنگ بنانے پر بھی پابندی لگ گئی ۔ احمد کی امی تو صدمے سے بستر سے جا لگیں اور مالی حالات اتنے خراب ہو گئے تھے کہ گھر کی گزر بسر مشکل ہو گئی ۔
سعاد نے ممانی جان کو جب خیریت کے لیے فون کیا تو خدیجہ بیگم  تو رونے لگ گئیں ۔

’’سعاد بیٹا جب سے تم ہمارے گھر سے گئے ہماری تو دنیا ہی اُجڑ گئی ۔‘‘ اور سارہ ماجرہ بتایا سعاد کے تو ہوش ہی اُڑ گئے اور اُس نے ممانی جان کو تسلی دی اور کہا کہ وہ فکر نہ کریں وہ واپس آرہا ہے ۔
سعاد فوراً پاکستان آیا اور ماموں جان اور ممانی جان کو دلاسہ دیا اور احمد جو بہت ہی شرمندہ تھا اُس کو اپنے رویے پر بہت دکھ تھا سعاد کے گلے لگ کر رونے لگ گیا کہ میرے بھائی مجھے معاف کر دو میں تم کو ساری زندگی بوجھ سمجھتا رہا مگر تم نہ تو ہم پر بوجھ تھے نہ منحوس بلکہ تم سے ہمارے گھر میں بر کت تھی میرے بھائی جب سے تم گئے پریشانیوں نے ہمارے گھر کا راستہ دیکھ لیا ۔
سعاد نے ماموں جان سے کہاکہ میں آپ سب کو اب اپنے اتھ دبئی لے کر جاؤں گا آپ نے ساری زندگی مجھ یتیم کو پرورش کی۔ اب اس برے وقت میں میرا بھی فرض ہے کہ آپ کا خیال رکھوں اور اب آپ سب میرے گھر رہیں گے اور احمد کی نوکری کا بھی بندوبست کر لیا ہے ماموں جان اب آپ کے آرام کے دن ہیں اور ہمارے کام کرنے کے۔
ماموں جان اور ممانی جان کے پاس سعاد کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اُن کا اپنا گھر تک  بک گیا تھا۔ احمد کو سخت احساس ندامت تھا کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا کبھی کوئی اونچا ہے تو وہ نیچا بھی ہو جاتا ہے اور یتیم ہونا کوئی منحوس نہیں ہوتا یہ تو ہمارے نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی سنت ہے ۔سہارا بنانے والی ذات اللہ پاک کی ہے اور یہ ہی زندگی کا نظام ہے ایک وقت تھا جب سعاد اپنے ماموں کے رحم و کرم پر تھا آج وہ سعاد کے رحم و کرم پر تھے ۔