کئی دنوں سے نسیمہ ازحد بے چین تھی۔ بے چینی کی کوئی وجہ بھی سمجھ نہیں آتی تھی۔ آج وہ بڑی بہن سلیمہ آپا کے ہاں چلی آئی۔ اسے کمرے میں بٹھا کر سلیمہ آپا چائے بنانے چلی گئیں۔ نسیمہ نے سائیڈ پر پڑا ہوا ایک دینی رسالہ اٹھا لیا۔ رسالہ کھولنے کے چند منٹ بعد ہی نسیمہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اسے اپنی بے چینی کی وجہ یکدم سمجھ میں آگئی۔
’’امی! میرا دوست آرہا ہے۔ آپ کے لیے کچھ سامان بھجوایا ہے۔‘‘ ظفر فون پر نسیمہ سے کہ رہا تھا۔ جب سے اس کی دبئی میں نوکری اچھی ہوئی تھی، وہ وقتاً فوقتاً اپنی ماں کو کچھ نہ کچھ بھیجتا رہتا۔
’’ہائے بیٹا! کیا ضرورت تھی۔ ابھی تو تونے شالیں اور دو سوٹ بھجوائے تھے۔ تو بس اپنا خیال نہیں رکھتا ناں! مجھے تیری بڑی فکر رہتی ہے۔ ‘‘ نسیمہ کو بے اختیار بیٹے پر پیار آگیا تھا۔ اس کا اکلوتا بیٹا تھا ۔
’’اچھا! وہ تیری کوثر آنٹی کہ رہی تھیں اب کب آئے گا ظفر ۔ تاریخ پکی کرنی ہے ناں!‘‘ نسیمہ نے کہا تو ظفر شرما گیا۔
’’بس امی ! اگلے مہینے کی ۱۹ کو چھٹیاں مل جائیں گی۔ اچھا اب چلتا ہوں۔‘‘ اس نے کہا تو نسیمہ نے دعائیں دیتے ہوئے فون رکھ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
نسیمہ آج بہت خوش تھی۔ ظفر دبئی سے آچکا تھا۔ دیگر بہت سے تحفوں کے ساتھ اس کے لیے سونے کی چھ خوبصورت چوڑیاں بھی لایا تھا۔ نسیمہ نے ایک عرصے تک غربت دیکھی تھی۔ لوگوں کے گھروں میں کام کیے تھے۔ جب ظفر کی نوکری ہوئی تب جا کر کچھ خوشحالی آئی۔ اور اب تو ظفر دبئی میں اچھے عہدے پر فائز تھا۔
جب بھی نسیمہ اپنی کلائی کی جانب دیکھتی تو اس کا دل فخر سے بھر جاتا۔ بیٹے کے لیے سو دعائیں دل سے نکلتیں۔ سونے کی چوڑیاں پیاری بھی بہت تھیں۔ دو بھاری کنگن اور درمیان میں چار نازک ڈیزائنگ والی چوڑیاں۔
۔۔۔۔۔۔
کئی سال ہو گئے ۔ نسیمہ کو بہو بہت فرمانبردار اور خدمت گزار ملی تھی۔ ظفر سے بھی روز بات ہو جاتی تھی۔ کچھ دنوں سے نسیمہ اپنے دل میں عجیب سی بے چینی محسوس کر رہی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ سب کچھ ٹھیک تھا۔ کئی بار نسیمہ کی نظر اپنی کلائی پر آکر ٹھہر جاتی۔ ایسا لگتا تھا اس بےچینی کا ان چوڑیوں سے کوئی خاص تعلق تھا۔ کئی بار اس نے سوچا چوڑیاں اتار دے لیکن پھر دل نہیں مانتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دن جب وہ سلیمہ آپا کے گھر سے واپس آئی تو اس کی بہت سارے دنوں کی بے چینی ایک دم سے ختم ہو گئی تھی۔ اسے حل سمجھ آچکا تھا۔ گھر آتے ہی اس نے ساتھ والی پڑوسن کے بیٹے شبیر کو بلا بھیجا۔ اسے کچھ رقم دی اور ایک ٹرسٹ کا پتہ پکڑا دیا۔ شام کو شبیر اس کا کام کر چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس رات جب نسیمہ سونے کے لیے لیٹی تو اس کے دل پر کوئی بوجھ نہیں تھا۔آج اس نے سلیمہ آپا کے گھر جو حدیث پڑھی تھی اسی میں اس کی بے چینی کا علاج تھا۔ اس نے کئی سالوں بعد آج اپنی سونے کی چوڑیوں کی زکوٰۃ دے دی تھی!
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت اسماءبنت زید رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اور میری خالہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم نے سونے کے کنگن پہن رکھے تھے۔ تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟‘‘ ہم نے کہا:’’نہیں۔‘‘ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:’’کیا تم پسند کرتی ہو کہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمھیں ان کی وجہ سے آگ کے کنگن پہنائے؟ لہٰذا ان کی زکوٰۃ ادا کرو۔‘‘ (مسند احمد)
{rsform 7}