Ap hotey to

 میں ایک قریبی سکول میں ٹیچر ہوں۔ یہ علاقے کا بڑا سکول ہے ۔ ابھی میری جاب کو ایک مہینہ ہی ہوا ہے۔ آج  ہفتہ تھا لیکن مجھے سکول جانا تھا ۔ پیرنٹس ٹیچرز میٹنگ تھی۔ یعنی  والدین سے اساتذہ کی ملاقات ۔ مجھے چونکہ آئے ہوئے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے تو میری ساتھی ٹیچر مس راحیلہ نے مجھے زیادہ  دیر خاموش رہنے کا کہا ۔

’’تم بس دیکھو، observe کرو کہ میں پیرنٹس سے کیسے بات کرتی ہوں۔‘‘ وہ ذرا  گھبرائی ہوئی تھی لیکن میں نے سوچا میرا وہم ہے۔

خیر! نو بجتے ہی والدین کے آنے کا  سلسلہ شروع ہو گیا۔

 

 ’’دیکھیں جی! میرا بیٹا اتنا ڈر گیا ہے۔ گھبرا یا ہوا سکول سے آتا ہے۔ یہ سب آپ کی وجہ سے ہے۔ ‘‘ ایک خاتون کہ رہی تھیں۔ ان کا بیٹا بے حد شرارتی تھا۔کبھی کسی کا لنچ کھا جاتا کبھی کسی کی پانی والی بوتل گر ا دیتا۔ پھر گیلے فرش پر اچھل اچھل کر چھنیٹے اڑانے لگتا۔ وہ کسی کی نہیں سنتا تھا اور مارنے کی ہمیں اجازت نہیں تھی۔ حالانکہ تاریخ  بتاتی ہے  لاتوں کے بھوت باتوں سے کبھی نہیں مانتے۔ مس راحیلہ کا ہی حوصلہ تھا جو اسے آدھے سال سے  اپنی کلاس میں برداشت کر رہی تھیں۔

آپ کی وجہ سے والا جملہ سن کر  مس راحیلہ کے منہ سے نکلا۔’’ہائیں!‘‘

 لیکن جلد ہی انہوں نے اپنا منہ بند کر لیا اور خاموشی سے اگلے پانچ منٹ تک اپنی ’’تعریفیں‘‘ سنتی رہیں۔ جیسے ہی انہوں نے کچھ کہنے کی کوشش کی وہ خاتون پھر بول پڑیں۔

’’میں آپ کو بتار ہی ہوں کہ میرے بیٹے کو ہاتھ نہیں لگانے کی بالکل ضرورت نہیں۔ یہ صرف پیار سے بات سمجھتا ہے۔ اگر آپ ماریں گی تو یہ ڈھیٹ ہو جائے گا۔ ‘‘

ان کی اس بات ایک زوردار قہقہ میرے اندر ابل پڑا جسے میں نے ہونٹوں تک آتے آتے روک لیا۔ مس راحیلہ کے تاثرات خاتون کی باتوں سے زیادہ  ہنسی والے تھے۔ ان کو دیکھ کر سمجھ نہیں آتا تھا کہ انہیں رونا آرہا ہے یا ہنسنا۔

خیر جی! اگلی باری ایک والد صاحب کی تھی جنہیں شاید بولنے کی بجائے سننے کی زیادہ عادت تھی۔ ان کا بیٹا بھی انہی پر گیا تھا۔ جتنا مرضی سبق یاد کروا لو، مجال ہے جو ایک لفظ بھی سنا دے۔

’’سر! میں کہتی ہوں کہ شرجیل! آپ کو یاد ہے  ناں! یہ ہاں میں سر ہلاتے ہیں۔ جب میں کہتی ہوں سنائیں تو یہ خاموش ہو جاتے ہیں۔ ‘‘ مس راحیلہ کہ رہ   تھیں۔

 شرجیل کی یہ سکتے والی کیفیت سے تو میں خود بڑی پریشان تھی۔ جب سے آئی تھی ایک ہی پوئم یادکروا کروا کر تھک گئی تھی۔ لیکن اس نے بھی  نہ سنانے کی قسم اٹھا رکھی تھی۔

’’وہ جی! بس۔۔ تھوڑا shy  ہے ۔ اس لیے۔ ‘‘ والد صاحب منمناتے ہوئے بولے تو مس راحیلہ بولیں۔  

’’دیکھیں! اب جنرل نالج تو اورل ہے ۔ وہ تو سنانا ہی پڑتا ہے ۔چلیں کوئی نہیں! ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

’’بہت شکریہ! ‘‘ وہ صاحب کرسی سے یوں اٹھے جیسے جیل کا قیدی آزادی ملنے پر اٹھتا ہے اور بچے کا ہاتھ پکڑ کر کلاس سے چلے گئے۔

اب دو عدد بڑے بڑے فراکوں والی خواتین ہمارے سامنے بیٹھی تھیں۔

’’امارا بچہ کیسا پڑتا ہے۔ تنگ ونگ تو نہیں کرتا۔‘‘ ایک خاتون نے اپنا لحیم شحیم ہاتھ میز پر زور سے مار کر پوچھا تو مس راحیلہ اچھل کر تھو ڑا پیچھے ہو گئیں۔

’’نہیں! بالکل نہیں! ‘‘ ان کے منہ سے غیر ارادی طور پر نکل گیا ۔ وہ کچھ کہ نہ سکیں حالانکہ آج صبح ہی وہ مجھ سے ڈسکس کر رہی تھیں  کہ گل خا ن کی ماما سے کہنا ہے اس کو رومال دے دیا کریں۔ ہر وقت ناک بہتی رہتی ہے۔ 

ایک خاتون حجاب میں تھیں۔ اپنے ساتھ وہ بچے کی کل کلاں ۱۰ کی ۱۰ کاپیاں لائےہوئے تھیں۔

’’جی! میں نے پوچھنا تھا کہ اس والے ٹیسٹ میں  فرید کی کوئی غلطی نہیں پھر آپ نے دس میں نو نمبر کیوں دیے؟‘‘ پھر انہوں نے دوسری کاپی رکھی۔ ’’فرید کی اردو رائیٹنگ خراب ہوتی جارہی ہے۔ کیوں؟‘‘ پھر تیسری کاپی۔ ’’ انگلش کا سلیبس اگر آپ دوبارہ لکھوا دیں پلیز۔‘‘ چوتھی کاپی۔ ’’فرید نے یہاں سارے سوال ٹھیک کیے آپ نے کم نمبر کیوں دیے؟‘‘

اس ساری صورتحال میں مس راحیلہ اور میں یوں بیٹھے تھے جیسے ہمارے نامہ اعمال ہمارے سامنے کھول کھول کر رکھے جارہے ہوں ۔ تھوڑی دیر بعد مس راحیلہ نے خشک گلا تر کیا اور جواب دینا شروع کیا۔ ’’یہ دیکھیں ! یہاں فرید نے یہ غلطی کی تھی۔ ‘‘ انہوں نے ایک جملے پر بنے ہوئے سرخ نشان  پر ہاتھ رکھا تو خاتون نے یوں غور سے اس غلطی کی طرف دیکھا جیسے کہ پہلی بار اس پر نظر پڑی ہو۔ ’’اچھا! لیکن۔۔‘‘

اچانک ان کے موبائل کی گھنٹی بجی۔

’’اچھا!  بابا آگئے۔ ٹھیک ہے میں  آرہی ہوں۔‘‘

یہ سننا تھا کہ ایک طویل سانس میرے اور مس راحیلہ کے منہ سے خارج ہوئی۔

اگلی خاتون نے بیٹھتے ساتھ ہی سوال کیا۔ ’’کیسا جا رہا ہے عبداللہ! ‘‘

’’جی  بس!  Averageہے۔لاسٹ ٹرم میں ۶۰ پرسنٹ تھے۔ اگر مزید محنت کرے تواچھے نمبرلےسکتا ہے۔ ‘‘ مس راحیلہ نے وہی گھسا پٹا جملہ دہرایا۔

’’ارے ! میں آپ کو کیا بتاؤں۔ اس کا بڑا بھائی ہے ناں وہ بہت  ذہین ہے۔ ہر کلاس میں فرسٹ آتا ہے۔ کپ لے کر آتا ہے۔ سرٹیفیکٹ بھی۔ ‘‘

’’جی ماشاء اللہ! تو میں کہ رہی تھی کہ اگر ہوم ورک میں۔۔۔۔‘‘

’’ہاں میری بیٹی ہے ناں اس سے دو سال بڑی ہے۔ وہ بھی بڑی intelligentہے ۔ روٹس سکول میں ڈالا ہوا ہے اس کو۔ 90 پرسنٹ نمبر لےکر آتی ہے۔ ‘‘

’’ماشاء اللہ!‘‘ مس راحیلہ اور کیا کہتیں۔

’’جی میں نےکہا یہ ہاتھ واتھ تو نہیں چلاتا کلاس میں۔ گھر میں تو اپنےسے بڑے بھائی کومارتا رہتا ہے۔‘‘ یہ ایک صاحب تھے جو اپنے بیٹے سے بڑے ہی نالاں تھے۔

’’ہیں! حارث!‘‘ مس راحیلہ نے یکدم حیران ہو کر حارث کو دیکھا۔ اس کے چہرے کی معصومیت بتاتی تھی کہ اس نے اپنی پوری چھ سالہ زندگی میں کبھی بھی کسی پر ہاتھ اٹھانا تو کوئی ننھی سی شرارت بھی نہیں کی ہو گی۔

یکے بعد دیگے والدین آتے گئے جن کے پاس ہمارے خلاف شکایات کا انبار تھا۔

’’پلیز میری بیٹی سے انگلش میں بات کیا کریں۔ بچے میں اعتماد آتا ہے۔  ہم گھر میں  ہر وقت انگلش ہی بولتے ہیں۔‘‘ حالانکہ یہ ساری  بات ان محترمہ نے پکی اردو میں کہی تھی۔

’’آپ بچوں کو جھولوں پر کیوں نہیں لے کر جاتیں؟ یہ کیا بات ہوئی۔ بیٹھے بیٹھے بچے بور ہو جاتے ہیں۔‘‘ اب ان کو کون بتائے کہ ہم روز بچوں کو لے کر جاتے ہیں  لیکن ان کا آدم بیزار بیٹا یہ کہ کر بنچ پر بیٹھا رہتا ہے کہ میرا دل نہیں کر رہا۔

’’کلاس کوئی اتنی خاص نہیں سجائی ہو ئی آپ نے۔میر ا دوسرا بیٹا فلاں سکول میں ہوتا ہے۔ آپ ذرا وہاں جا کر ان کا کلاس روم دیکھیں ۔ پھر آپ کو پتہ چلے گا کلاس ڈیکوریشن کیا ہوتی ہے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے ان صاحب نے ایک نظر چاروں دیواروں پر دوڑائی جہاں ہم نے شاید ہی کوئی جگہ خالی چھوڑی ہو پھول بوٹے لگانے کے لیے۔ چارٹس، مہینوں دنوں کے نام ، چھوٹے چھوٹے concepts، بیلیں، گھاس۔۔  اب  ہم فانوس،  کاغذ کی لڑیاں اور سنہری بلب لگانے سے تو رہے۔

گھر آکر میں سوچتی رہی کہ کیا نئی نسل کی تربیت کی ساری ذمہ داری اساتذہ کی ہے؟  والدین  کا کام بس الزامات اور شکایات کی بوچھاڑ کرنا رہ گیا ہے؟ حالانکہ آج کل یہ استاد ہی ہیں جن کا ہاتھ پکڑ کر بچے اے بے سی او ر الف بے پے لکھنا سیکھتے ہیں۔ جن کی کوششوں سے نئے نئے فیڈر چھڑائے بچے کتابوں کو سمجھنے لگتے ہیں۔ جن کی ان تھک اور روزانہ کی محنت سے بچے ہر کلاس میں پاس ہو کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔  والدین میں سے کوئی مڑ کر نہیں دیکھتا ان کے بچے کی شخصیت میں کسی استاد کا کتنا حصہ تھا۔ کوئی فیڈ بیک تو کیا ایک جملہ یا شکریہ کا ایک لفظ کہنا بھی گوارا نہیں کرتا ان ٹیچرز کو جو خود اپنے بچے اپنا گھر اور سینکڑوں کام چھوڑ کر صرف آپ کے بچے کے لیے صبح صبح آجاتی ہیں اور سارا دن آپ کے بچے کو دو لفظ  پڑھانے کے لیے تھک کر چور ہو جاتی ہیں۔ پھر گھر جا کر اپنے بچے سسرال اور گھر کے کام سنبھالتی ہیں۔ وہ جاب کیوں کرتی ہیں، یہ ان کا مسئلہ ہے۔ آپ کا نہیں۔

 اساتذہ میں کئی ایک غلطیاں ہوتی ہیں۔ ظاہری بات ہے وہ فرشتے نہیں ہوتے۔ وہ بھی آپ کی طرح انسان ہیں۔ آپ صرف ایک دو یا تین بچوں کو دیکھ رہے ہیں وہ بیک وقت بیس یا تیس بچوں سے نمٹ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں غلطی کا ہو جانا یا رویے میں خرابی و تلخی آنا عام بات ہے۔ یہ بھی ان کا مسئلہ ہے ۔ وہ اس کو کب ٹھیک کرتے ہیں یہ ان پر منحصر ہے۔  آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ وہ نہیں کر رہے جو آپ کو کرنا چاہیے تھا۔ یعنی بچوں کو پڑھائی میں  وقت دینا، ان کے  اساتذہ کا  احترام  اور ان کا مشکور ہونا جو آپ کے شرارتی ترین بچے کو آدھا دن  پوری خوشدلی سے برداشت کرلیتے ہیں۔ آپ ہوتے تو ............! 


{rsform 7}