’’نادیہ باجی آپ میرا کینیڈا کا ویزہ کب تک بھیجیں گی میں شدت سے انتظار کر رہا ہوں کب میری پاکستان سے جان چھٹے گی؟‘‘ ظفر اکتائے ہوئے لہجے میں کہ رہا تھا۔ وہ اس وقت اپنی سب سے بڑی بہن نادیہ باجی سے مخاطب تھا جو شادی کے بعد سے اب تک کینیڈا میں ہوتی تھیں۔
نادیہ باجی دوسری جانب سے بولیں۔
’’دیکھو ظفر میں کوشش تو پوری کر رہی ہوں مگر ایک مسئلہ ہو سکتا ہے ۔‘‘
’’ وہ کیا ؟‘‘
’’دیکھو ہو سکتا ہے کہ تمہارا ویزہ تو جلد لگ جائے مگر تمہاری بیوی اور چار بچوں کا ویزہ بعد میں لگے۔ اُن کو تم ایک دو سال بعد بلا لینا اور میں یہ بات بھی بتاؤں کہ امی کا ویزہ تو بالکل بھی نہیں لگ گا۔ تم نے اُن کے بارے میں کیا سوچا ہے؟ تم اُن کے اکلوتے بیٹے ہو۔ وہ تمہارے بغیر کیسے رہیں گی ؟
نادیہ باجی نے احساس دلایا لیکن انہیں پتہ تھا ظفر کی آنکھیں ابھی صرف کینڈا کا ویزہ دیکھ رہی ہیں۔
’’نادیہ باجی یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ میں اپنی بیوی حنا اور بچوں کے بغیر کینیڈا آجاؤ ں اور رہی بات امی کی تو اُن کو میں زیبا باجی کے پاس چھوڑ دوں گا ۔‘‘
ظفر نے حتمی لہجے میں کہا۔ اس نے سب کچھ سوچ کر رکھا ہو ا تھا۔
’’ظفر تم نے زیبا باجی سے بات کی ہے اس بارے میں؟ پہلے اُن سے بھی پوچھ لو کہ اُن کے شوہر اجازت بھی دیتے ہیں کہ نہیں۔‘‘ نادیہ باجی نے فکرمندی سے کہا۔ انہیں یہ سب ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔
’’ باجی آپ فکر نہ کریں۔ اگر زیبا باجی نہ مانیں تو میں ماہم سے بات کروں گا ۔‘‘ ظفر اب بھی اپنی بات پر پکا تھا۔
’’چلو تم بہنوں سے بات کر لو پھر بتاؤ چلو اب فون بند کر تی ہوں ۔‘‘ یہ کہ کر نادیہ باجی نے فون رکھ دیا۔
فون بند کرتے ہی ظفر نے فوراً اپنی بڑی بہن زیبا باجی کو فون ملایا اور سارا ماجرہ ان کے سامنے رکھ دیا۔ زیبا باجی یہ سب سن کر حیرت میں آگئیں اور بولیں ۔
’’ظفر تم کو کیا ہو یا ہے ۔ امی جان جو صبح شام تم کو ہی دیکھ کر جیتی ہیں۔ تم ان کو چھوڑ جاؤ گے؟ اچھی بھلی تو نوکری ہے تمہاری یہاں پر۔ پھر تم کو یہ کیا سوجھی ہے کینیڈا جانے کی؟ تم یہ خیال ہی اپنے دل سے نکال دو۔ اب تو ابو جان بھی زندہ نہیں ہیں جو امی جان کا خیال رکھ لیں اور امی جان کی طبیعت بھی اب دن بہ دن گر رہی ہے ۔اُس روز ڈاکٹر نے تمہارے سامنے ہی بتایا تھا کہ ان کا دماغ چھوٹا ہو رہا ہے وہ بالکل بچوں جیسی ہو رہی ہیں ۔‘‘ زیبا باجی کہتی چلی گئیں۔ انہیں ظفر کا باہر جا کر رہنے کا پلان بالکل اچھا نہیں لگا تھا۔
’’ یہ سب اپنی جگہ پر داست ہے مگر مجھے معلوم ہے کہ آپ نہیں چاہتیں کہ میری زندگی بہتر ہو اور میرے بچے اچھی تعلیم حاصل کریں ۔ یہاں کی کمائی میں میرا گزارا نہیں ہو تا ہے اور میرے بہت سے دوست باہر چلے گئے ہیں مجھ سے زیادہ کما رہے ہیں کراچی کے حالات ایسے ہیں کہ آئے دن لوگ ہنگاموں میں جان گنوا رہے ہیں۔‘‘ ظفر کے پاس بھی ایک سو ایک دلائل تھے۔
زیبا باجی کہنے لگیں۔’’ میرے بھائی تم کو کیا اللہ پر بھروسہ نہیں ہے تم ان وجوہات کی بنا پر اپنی جنت کو چھوڑ جاؤ گے۔‘‘ظفر نے کچھ جواب دیئے بغیر ہی فون بند کر دیا ۔
اب ماہم سے بات کرنا رہ گیا تھا۔ ماہم ظفر کی چھوٹی بہن تھی جس کے شوہر کو کینسر تھا وہ دن رات اُن کی تیما داری میں لگی رہتی تھی۔ اُن کے شوہر کو بھروسہ تھا کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو ظفر اپنی بہن کو سنبھال لے گا۔ ماہم کی صرف دو بیٹیاں تھیں جو ابھی اسکول جاتی تھیں ۔ بحر حال ابھی ظفر نے ماہم سے اس بات کا ذکر نہ کیا ۔
ایک دن نادیہ باجی کا فون آیا ۔ وہ کہ رہی تھیں۔
’’ ظفر تم کو کینیڈا کی ایمبیسی کی طرف سے اسلام آباد جانا ہوگا انٹر ویو کے لئے ۔‘‘
ان کے لہجے میں اداسی تھی۔ ظفر کی آئے روز کی منتوں اور فون کالز کے بعد انہوں نے اس کے ویزہ لگوانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔
ظفر کی تو خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا ۔ جب انٹر ویو میں امی کی بات آئی تو ایمبیسی والوں نے صاف منع کر دیا کہ اب اس عمر میں ہم اُن کا ویزہ نہیں دیں گے۔ ظفر فوراً مان گیا ۔ وہ پہلے ہی کون سا ان کو ساتھ لے جانے کے لیے تیار تھا۔ اس نے فوراً کہہ دیا کہ میں امی جان کو بہن کے حوالے کر دوں گا ۔ یوں ظفر کے بیوی بچوں کا ویزہ مل گیا ۔
واپس کراچی آتے ہی ایک قیامت کھڑی تھی ۔ماہم کے شوہر آئی ۔ سی ۔ یو میں زندگی اور موت کی کشمکش میں تھے ۔ ماہم کو یہ خبر آئی ۔سی ۔ یو کے باہر ملی کہ ظفر کا کینیڈا کا ویزہ لگ گیا ہے۔ اُس کے لیئے تو یہ خبر حیران و پریشان ہی کر دینے والی تھی۔ اس نے بھائی سے صرف ایک التجا کی کہ بھائی پلیز یہ خبر میرے شوہر کو نہ بتانا ۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ یہ خبر ماہم کے شوہر کے کانوں تک نہ گئی اور وہ اس پر بھروسے پر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے کہ ظفر اپنی بہن ماہم کا خیال رکھے گا ۔
لیکن ناخلف ظفر نے بہن کا کیا خیال رکھنا تھا اُس کو تو اپنی ماں تک کا احساس نہ تھا۔ ماہم شدید صدمے کی حالت میں تھی۔باقی تینوں بہنیں بھی ماہم کے غم میں شریک تھیں۔ امی جان کی تو دماغی حالت ایسی تھی کہ وہ کوئی بات سمجھ تو بہت جلدی سمجھ جاتیں اور کوئی تو بالکل بھی نہیں ۔ اُن کو تو یہ احساس بھی نہ تھا کہ اُن کی بیٹی بیوہ ہو گئی ہے ۔
ادھر ظفر نے زیبا باجی پر امی جان کی ذمہ داری ڈالی اور اپنے بیوی بچوں کو لے کر کینیڈا کا رخ کر لیا ۔
’’میں وہاں جا کر اتنا پیسہ بھیجوں گا کہ تم امی کے لیئے ایک نرس رکھ لینا اور ماہم کے بچوں کا خرچہ بھی نکل آئے گا ۔‘‘ اس نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ زیبا باجی نے کوئی جواب نہ دیا۔
ظفر کے جانے بعد امی جان کی آنکھیں تو جیسے پتھر کی ہوگئیں تھیں۔ وہ بچوں کی طرح ایک ایک کمرے میں جاتیں۔ اکلوتے بیٹے ، اکلوتے پوتے اور پوتیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئیں ۔ آنسو تھے کہ ایک پل نہ رکتے تھے ۔ ظفر فون پر بات بھی کر تا تو صرف سن لیتیں مگر جواب نہ دیتیں۔
شروع میں تو ایک دو مہینے ظفر نے خرچہ بھیجا ۔پھر تیسرے مہینے ہی اُس نے امی کے لیے تو زیبا باجی کو کچھ روپے بھیجے مگر ماہم سے معذرت کر لی کہ یہاں پر ہمیں ٹیکس بہت دینا پڑتا ہے اس لیے میں آپ کے اخراجات نہیں اُٹھا سکتا ۔
اللہ کی ذات بہت بڑی ہوتی ہے اُدھر ماہم کے شوہر کے ایک دوست کے بچوں کی پڑھائی کی ذمہ داری اُٹھالی اور ماہم نے مقامی سکول میں پڑھانا شروع کر دیا۔
امی آہستہ آہستہ بالکل بستر پر آگئی تھیں۔ زیبا باجی اور ماہم اُن کا بھرپور خیال رکھتیں مگر وہ بیٹے کی جدائی کو برداشت نہ کر سکین اور اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ ظفر امی کے انتقال پر بھی نہ آسکا اُسکا کیونکہ اس کی امیگریشن میں مسئلہ ہو جاتا۔ بس وڈیو کال پر آخری چہرہ دیکھ لیا ۔
وقت کو تو جیسے پر لگے ہوئے تھے ۔ایسا گزرا کہ پتہ ہی نہیں چلا۔ اب ظفر خود اپنے بچوں کے رحم و کرم پر تھا ۔جن بچوں کو اچھے مستقبل کے لیئے وہ کینیڈا گیا تھا وہ ہی اُس کے آگے آزمائش بنے کھڑے تھے ۔بچیوں نے تو چھوٹی عمر سے ہی ریسٹورنٹ میں جاب شروع کر دی تھی اور اس کا اکلوتا بیٹا عمران ایک اسٹور پر کام کر تا تھا ۔ اُس کی بیوی نے ظفر کو اولڈ ہوم میں داخل کر وادیا تھا کیونکہ وہاں پر بھی بچوں ے پاس وقت نہیں ہوتا کہ وہ جاب کریں یا ماں باپ کی خدمت کریں۔ بس ’’فادر ڈے ‘ ‘ والے دن آکر مل لیتے ہیں۔ اب ظفر کو وہ تمام باتیں یاد آئیں جواپنی بھولی ماں سے کہا کرتا تھا۔ اُس نے اپنی جوانی میں غلطیاں کیں مگر گیا وقت کبھی ہاتھ نہیں آتا ۔ دنیا میں صرف پیسہ اور بنگلہ ،گاڑی سے ہی زندگی نہیں گزرتی۔ کچھ رشتے آپ سے وابستہ ہوتے ہیں اگر اُن کی قدر نہ کی جائے تو بس آپ کے پاس تکلیف دہ یاد ہی رہ جاتی ہیں ۔ اب وہ دن رات امی جان کو یاد کر کے روتا ہے اور اللہ سے معافی مانگتا ہے یہ بات اٹل ہے کہ ماں باپ کی نا فرمان اولاد کو دنیا میں ضرور سزا ملتی ہے۔
با ادب ، با نصیب ، بے ادب ، بے نصیب ۔ اگر ہم اپنے ماں باپ جو ہمیں بچپن سے لے کر زندگی کے آخری سانس تک ہم سے محبت کرتے ہیں اُن ہی کی عزت نہ کر سکیں ، اُن ہی کو سکون نہ دے سکیں تو ایک وقت آتا ہے ہم خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔ اصل کامیابی ماں ، باپ اور اللہ کو خوش کرنے میں ہی ہے ۔ اُن کی اطاعت کرے میں ہی ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ ’’اس کی ناک غبار آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو (یعنی ذلیل و رسوا ہو)۔ کسی نے عرض کیا ۔’’یا رسول اللہ! وہ کون ہے؟‘‘
حضور نے فرمایا ۔’’ جس نے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔‘‘ (صحیح مسلم)