کب تک؟

          Print

’’امی جی! حریم کو بھی بلا لیں ناں!‘‘ رانیہ نے بے قراری سے کہا۔  وہ آج ہی امی کے گھر پہنچی تھی۔ شام کو افطاری تھی۔اس کا بہت دل کر رہا تھا حریم سے ملنے کو۔ پچھلی بڑی عید پر   ملی تھی۔ اب  پورا سال ہونے کو تھا۔ 

’’ہاں ! میں نے اسے فون کیا تھا۔ آرہی ہے۔ ۵ بجے تک۔ پہلے سسرال   جائے گی۔ ‘‘ امی نے بتایا۔

’’ٹھیک ہے! ‘‘ اس کا  دل خوشی سے سر شار ہو گیا۔

 اس دن رانیہ کو بالکل روزہ نہیں لگا۔  چھوٹی بہن سلمیٰ کے

ساتھ مل کرافطاری کے لیے ڈھیر ساری چیزیں بنائیں۔  فروٹ چاٹ، چنا چاٹ، پالک والے پکوڑے، چکن اسپیکٹگی ، بریانی ، مٹن قورمہ۔

افطاری سے پہلے تک تھک کر چور ہو گئی تھی۔ اس نے گھڑی دیکھی۔ سوا چھ ہونے لگے تھے۔

’’امی جی! حریم کو فون کریں ۔ کہاں رہ گئی ہے۔‘‘

’’بیٹا وہ…… ابھی اس کا میسج  آیا تھا۔ شہریار نے گلی میں تم لوگوں کی گاڑی کھڑی دیکھ لی تھی۔ بس وہیں سے یو ٹرن لے لیا اور واپس چلا گیا۔ ‘‘ امی نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں بتایا۔ آنسو ان کی آواز میں گھلے ہوئے تھے۔

’’کیا!!‘‘ چھناک سے رانیہ کے اندر کچھ ٹوٹا۔ کیا شرعی پردہ کرنا اتنا بڑا جرم ہے؟ کیا اللہ کے حکم ماننا کوئی سزا ہے؟

’’امی جی!  شہریار بھائی کب تک ہمارا بائیکاٹ کیے  رہیں گے۔ چھ سال ہوگئے ہیں۔ابھی تک ان کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ میں نے شرعی پردہ کیا ہے کوئی گناہ تو نہیں کیا۔ کیا ہوا جو ان کے سامنے نہیں آتی۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ وہ میرے سے میری بہن کو جدا کر دیں۔‘‘ رانیہ پھٹ پڑی تھی۔

’’بس بیٹا! ‘‘ امی نے گہر ی سانس لی۔ ’’وہ کہتا ہے میں کوئی غیر ہوں جو رانیہ میرے سے پردہ کرتی ہے۔کہتا ہے  رانیہ نے مجھے بے کردار ہونے کا طعنہ دیا ہے پردہ کر کے۔  تم چھوڑو۔ ایسے ہی فضول باتیں کرتا رہتا ہے۔ اللہ اسے ہدایت دے۔ میرا اپنا  دل دکھی ہے۔‘‘

’’خبیث عورت! تمھیں پتہ تھا ناں کہ وہ ۔۔ رانیہ بھی آئے گی افطاری پر۔ پھر تم مجھے کیوں لے کر آئی یہاں ۔ ‘‘ شہریار گاڑی چلاتے ہوئے بھی گرج رہا تھا۔ وہ شروع سے سخت مزاج تھا لیکن رانیہ کے شرعی پردے کواس نے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ حریم کی جیسے ٹانگوں سے جان نکل گئی ۔ آنسو اس کے گال بھگونے لگے۔

’’کب تک مجھے اپنی سگی  اور اکلوتی بہن سے ملنے نہیں دیں گے۔کب تک میں اسے کی شکل دیکھنے کو ترسوں گی؟‘‘وہ دل ہی دل میں شکوہ کناں تھی۔ ’’ کب وہ وقت آئے گا جب ہم دونوں بہنیں عام بہنوں کی طرح ہنسیں بولیں گی،باتیں کریں گی، ایک دوسرے کو گلے لگائیں گی؟   کب تک بائیکاٹ کریں گے رانیہ کا۔ ایک گھر میں پلے ہیں ہم دونوں۔ شرعی پردہ کر کے اس نے کوئی جرم کیِا ہے کیا؟ آہ!! صرف اپنی انا کی خاطر دوسروں کو اپنوں سے جدا کر کے نہ جانے لوگوں کو کیا ملتا ہے۔ ہائے!اللہ ہی  میرا سب سے بڑا مددگار ہے ۔‘‘ حریم نے سوچا اور گہری سانس لے کر شیشے سے باہر دیکھنے لگی ۔

…………………………………………………………………

حضرت ابوبکر ؓ کی روایت ہے کہ رسول ﷺ نے بیان فرمایا:’’ کوئی گناہ ایسا نہیں کہ اس کا کرنے والا دنیا میں ہی اس کا زیادہ سزا وار ہو اور آخرت میں بھی یہ سزا اسے ملے گی سوائے ظلم اور رشتہ توڑنے کے۔‘‘ (رواه أبو داود 4902 والتِّرمذي 2511  )۔


{rsform 7}