’’علی! گلی نمبر سولہ میں  حملہ ہوا ہے۔ جلدی پہنچو وہاں۔‘‘ مجھے فون آیاتو میں سارا ضروری سامان لے کر چل پڑا۔ میں رضاکار ہوں۔ یہاں ہمارے ملک شام کے شہر غوطہ میں کیا قیامت بپا ہے۔ باقی ملکوں کے رہنے والے لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ صرف ویڈیوز دیکھتے ہیں اور ان میں نظر آنے والے کٹے پھٹے جسموں کو اور بچوں کی دردناک چیخوں کو ایک منظر سمجھتے ہیں۔ میں ان کو کیسے بتاؤں یہ منظر نہیں ہیں۔ یہ حقیقت ہے جو ہم پر بیت رہی ہے۔ ہماری ہر صبح غم ہے ہماری ہر شب غمناک۔ پر سکون گھروں میں رہنے والے لوگ  ہمارا دکھ نہیں جان سکتے۔ میرے نبی کریم ﷺ ارشاد فرما گئے ہیں۔’’جب اہل شام میں فساد پھیل جائے تو تم میں کوئی خیر نہ رہے گی اور میری (امت میں سے) کچھ لوگوں کی (حق پر ہونے کی وجہ سے) مدد کی جاتی رہے گی اور انہیں کسی کے ترک تعاون کی کوئی پرواہ نہ ہوگی یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ (مسند احمد)  ہم اہل الشام روز کٹ رہے ہیں مر رہے ہیں لیکن  نہ جانے وہ لوگ اللہ کو کیسے جواب دیں گے جو اپنے پرسکون گھروں میں بیٹھ کر ہماری تباہی کی ویڈیوز اور تصویریں دن رات دیکھتے ہیں اور ہمارے حق میں کچھ نہیں کرتے۔

جب ملبے کے نیچے سے آتی آوازیں تھک جائیں اور پھر  ایک گہری خاموشی چھا جائے تو میں  اپنے سفید چونے بھرے ہاتھوں کو دیکھتا ہوں جو پتھر اور اینٹیں ہٹا ہٹا کر تھک گئے ہیں۔ پھر میں ایک نظر آسمان پر دوڑاتا ہوں جہاں شاید ایک یا دو تین ننھی روحیں فرشتے کے ساتھ چمٹی ہوئی جارہی ہیں۔ وہ ہنس رہی ہیں مسکرا رہی ہیں اور مجھے فی امان اللہ کہہ رہی ہیں۔ میں بھی انہیں فی امان اللہ کہتا ہوں اور زخمی کی بجائے لاشیں بھیجنے والا سٹریچر لانے کے لیے کہہ دیتا ہوں۔

ہاں تو جب مجھے فون آیاتو میں تیزی سے گاڑی میں بیٹھا اور چل پڑا۔  جب میں وہاں پہنچا تو ہماری سفید ہیلمٹ ٹیم کے کچھ لوگ بھی زخمی ہوئے تھے۔ میں نے انہیں طبی امداد دی اور ایمبولینس میں لٹا کر ہسپتال کی جانب روانہ کیا۔ پھر میں باقی ساتھیوں کی طرف آیا۔

 

ایک افراتفری تھی جو روز کا معمول بن چکی تھی۔ ہر طرف سے آتی چیخ و پکار مجھے اپنی طرف بلا رہی تھی۔ میں بھی تیزی کے ساتھ ملبہ ہٹانے لگا۔

اتنے میں پھر سے وہ درندے جہاز ہمارے اوپر منڈلانے لگے تو ہم بھاگ کر اوٹ میں چھپنے لگے۔

اللہ کا شکر کہ وہ اس بار بم برسائے بغیر چلے گئے۔ شاید وہ دیکھ چکے تھے کہ ان کے تین بموں نے ہی کیسی تباہ کاری کی ہے۔ اس لیے مزید بم ضائع کرنے کا کیا فائدہ۔

’’اللہ اکبر!!‘‘ یہ میرے ساتھی عبداللہ کی آواز تھی۔ وہ بہت پرجوش تھا۔ اس نے ہاتھوں میں ایک چھ ماہ کے بچے کو اٹھایا ہوا تھا جسے صرف چند خراشیں آئی تھیں۔ ایک دیوار گری تو اس کے بستر سے ٹکرا کراوٹ بن گئی ۔ باقی سارا ملبہ اوپر گرتا رہا لیکن نیچے بچے کو کچھ نہ ہوا۔ دیکھا! یوں معجزے ہوا کرتے ہیں ۔

چار مرد اورتین عورتوں کو ہم نے زخمی  حالت میں نکال لیا اور ایمبولینس میں منتقل کر دیا۔ ان میں سے ایک عورت سٹریچر پر سے ہی  پکار رہی تھی۔

’’میرا بچہ! میرا بیٹا! وہ نیچے والے کمپاؤنڈ میں کھیل رہا تھا۔اس نے نیلی قمیص پہن رکھی ہے۔  اس کو نکالو۔ کیا نکال لیا۔ اچھا مجھے دکھاؤ۔ کہاں ہے میرا بچہ؟‘‘ وہ خود ہی سوال کر رہی تھی پھر ہمارے تاثرات دیکھ کر خود ہی جواب دینے لگتی۔ آخر کار بے ہوش ہو گئی۔

میں نے اللہ کا شکر ادا کیا ۔ آپ کو نہیں معلوم یہاں بے ہوشی بہت بڑی نعمت ہے۔  اپنوں کی موت کا دکھ بھول جاتا ہے۔ نیلی شرٹ والے بچے کی لاش تو ہم کب کی نکال چکے۔ اس کا چہرہ دیکھنے کے قابل نہیں تھا۔ وہ ایک ستون کے نیچے دبا ہوا ملا تھا۔

لوگوں کو ملبے کے نیچے سے نکالتے دوپہر ڈھلنے لگی۔ اب ’’بچاؤ بچاؤ!‘‘ اور ’’میں یہاں ہوں‘‘ کی آوازیں  تقریباً ختم ہو چکی تھیں۔ جو جہاں تھا اللہ کو پیارا ہو گیا تھااور ہم وہیں کھڑے رہ گئے تھے۔ زخمی ہاتھ اور مٹی سے بھرے دامن لیے۔ جس کی زندگی تھی وہ بچ گیا تھا اور جس کی نہیں تھی، وہ ۔ ۔۔ چلا گیا تھا۔ اپنوں کو چھوڑ کر یا اپنوں سے ملنے۔

جب شا م کی زردی پھیل گئی تو مجھے شدید تھکن کا احساس ہوا۔ میں یکدم بیٹھ گیا۔ یونہی مٹی کریدتے مجھے ایک دم کچھ یاد آیا۔

’’ہیلو بیٹا! میں بلڈنگ نمبر پانچ میں جا رہی ہوں۔ تھوڑی دیر میں آجاؤں گی۔ ‘‘ امی کا صبح فون آیا تھا۔ پھر میری نظر ادھر ادھر سے ہوتے ہوئے زمین پر پڑے بورڈ پر پڑی۔

 ’’عمارت نمبر: پانچ‘‘

 امی امی ۔۔ ! یہاں آ ئی تھیں آپ ؟ کہاں ہیں آپ؟ میں  ایک دم کھڑا ہو گیا۔ میں نے امی کو آوازیں دینا شروع کیں۔ میں بھول گیا کہ یہ وہ بلڈنگ ہے جہاں پر صبح بم بر سائے گئے ہیں ۔ آ گ کا طوفان ابھی ابھی تھما ہے۔  زخمیوں کو نکال لیا گیا ہے اور باقی۔۔

لیکن میری امی کہاں ہیں؟ امی ۔۔۔ ا می ۔۔۔ کہاں ہیں آپ؟ میں دیوانہ وار پتھر پھلانگتا یہاں سے وہاں جانے لگا۔ میرے دوستوں نے مجھے حیرانی سے دیکھا پھر دکھ سے۔ وہ جانتے تھے اب تک کوئی زندہ نہیں بچا ہے۔ پھروہ میری مدد کے لیے ملبے کو نئے سرے سے کریدنے لگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امی مل گئی ہیں۔ بول نہیں رہیں۔ سو رہی ہیں۔ مجھے سلامتی کی دعا نہیں دے رہیں۔خاموش ہیں۔ ان کے بازو بے حرکت ہیں۔ ورنہ وہ مجھے فوراً گلے سے لگالیتیں۔میں کیا کروں کہاں جاؤں؟ میں اپنی امی کو نہیں بچا سکا۔کاش میں انہیں اس بلڈنگ میں آنے سے منع کر دیتا لیکن وہ منع نہ ہوتیں۔ انہیں مدد کرنا تھی۔ کھانا پہنچانا تھا بچوں کے لیے۔ اب وہ انہی بچوں کے ساتھ چلی گئیں۔ مجھے ساتھ نہیں لے کر گئیں امی۔ امی! آپ کیوں چلی گئیں مجھے چھوڑ کر۔ میں اکیلا رہ گیا ہوں ۔امی اٹھ جائیں میرے سے باتیں کریں۔ مجھے پیار کریں۔ امی یہ کیسی نیند سورہی ہیں آپ۔ آ پ تو میری آہٹ سے اٹھ جاتی تھیں اب کیوں نہیں اٹھ رہییں۔ امی اٹھ جائیں ناں!  میں آپ کو بچا لوں گا۔ میں تو سب کو بچاتا ہوں۔ میں نے اتنے لوگوں کو ملبے سے نکالا ہے۔ میں آپ کو بھی نکال لوں گا امی۔ آپ اٹھ جائیں۔ واپس آ جائیں۔میرا تو آپ کے سوا کوئی نہیں تھاپھر آپ مجھے کیوں چھوڑ کر چلی گئیں۔ امی مجھے معاف کر دیں۔ میں آپ کو نہیں بچا سکا۔ امی میری غلطی معا ف کر دیں ناں آپ تو بہت جلدی معاف کردیا کرتی ہیں۔ پھر اب کیوں نہیں بول رہیں؟ امی اٹھ جائیں۔ شام ہو گئی ہے گھر چلتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے آپ میرے لیے کھانا بنا کر آ ئی تھیں۔ میں نے آپ کے ہاتھوں سے کھانا کھانا ہے۔ میں نے آپ کی دعائیں لینی ہیں۔ امی! مجھے معاف کر دیں مجھے معاف کر دیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے گھر پر اب کوئی میرا انتظار نہیں کرتا۔ مجھے دنیا کی کوئی چیز خوشی نہیں دے سکتی۔ میری ماں میری جنت مجھ سے دور چلی گئی ہے۔ میں اس کو نہیں بچا سکا۔لیکن میں اب بھی رضاکار ہوں۔ میرا جذبہ جوان ہے۔ میں اب بھی  لوگوں کی مدد کرتا ہوں۔ کیونکہ میری امی مجھے ایسا ہی دیکھنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے مجھے بغیر کسی بدلے کے مدد کرنا سکھایا تھا۔ مجھے یقین ہے جب انہوں نے  جنت کے جھروکے سے مجھے لوگوں کے لیے بھاگ بھاگ کر خدمت کرتے دیکھا ہو گا تو ان کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھی ہوں گی۔ امی! اللہ آپ کو اعلیٰ جنتوں کے محلات میں  جگہ دے اور مجھے آپ کا رفیق کار بنا دے۔ آمین!