’’کتنے پیسے دیے تھے  تمھارے ابو نے؟  بس یہی چالیں ہیں ان کی۔ عید عید پر  ہم ملنے کیا چلے جاتے ہیں ہمیشہ اپنا دکھڑا لے کر بیٹھ جاتی ہیں۔ بس ہماری کمائی پر نظر ہے ان کی۔ ‘‘ امی  پھپھو کے گھر سے واپسی پر غصے سے بڑبڑا رہی تھیں۔ آج عید کا دن تھا۔ ہم پہلے ماموں کے گھر گئے ۔ وہاں نانا ابو سے خوب باتیں کیں۔ماموں کے بڑے سے لان میں ہم سب  کزنز نے آنکھ مچولی کھیلی۔   بہت مزہ آیا۔

پہلے نانا ابو ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے۔ ابو چونکہ کافی عرصہ باہر رہے تھے  تو نانا ابو اور نانی جان ہی ہمارے ساتھ تھیں۔ اس لیے ہم سب بہن بھائی ان سے کافی اٹیچ تھے۔ ماموں کے گھر سے واپسی پر اچانک ابو جان نے گاڑی پھپھو کے گھر کی طرف موڑ لی۔ یہیں سے امی کا موڈ خراب ہونا شروع ہوا۔ ابو کے سامنے وہ زیادہ تو کچھ نہیں کہہ سکتی تھں بس دبے دبے لہجے میں اتنا کہا۔

’’کیا ضرورت ہے جانے کی۔ گھر میں مہمان آنے والے ہوں گے۔اتنے کام پڑے ہیں۔‘‘

 

ابو خاموش طبیعت کے تھے اور امی کی ایسی باتوں کے جواب میں وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ مزید خاموشی اختیار کر لیتے تھے۔ سو اس وقت بھی ایسا ہی ہوا۔

پھپھو کا گھر لمبی تنگ سی گلی کے آخری کنارے پر تھا۔ عید کا دن تھا سو رش نہ ہونے کے برابر تھا۔ ابو نے ایک بند دکان کے آگے گاڑی پارک کر دی۔ امی کا منہ بنا ہوا تھا جس کا اندازہ ہم سب بہن بھائیوں کو ہو رہا تھا۔ باجی بھی کھلی ہوئی نالیوں اور کوڑے کے ڈھیر کو دیکھ کر ناک چڑھا رہی تھیں۔ خیر ہم سب آگے پیچھے چلتے گئے۔ حتیٰ کہ پھپھو کا گھر آگیا۔ ایک چھوٹا ساتقریباً ہوا دروازہ اور اس کے آگے سیمنٹ کے فرش والا صحن۔ ایک بڑا کمرہ جس میں بیشتر جگہ ٹین والی پیٹی نے گھیررکھی تھی اور ایک نہایت چھوٹا کمرہ جس میں پھپھو کے جہیز کی نہایت ہی خستہ حال کرسیاں اور میز رکھے تھے۔ کچن کے نام پر بڑے کمرے کی کھڑکی کے ساتھ دو شیلف تھے اورفرش پر رکھا ہوا ایک  کالا سا چولہا۔

ہمیشہ کی طرح پھپھو ہم سے مسکراتے ہوئے ملیں۔ ان کی عادت تھی وہ ملتے وقت ہمیشہ ہمارے ہاتھ اور پیشانی چوما کرتی تھیں جو باجی کو بہت برا لگتا تھا۔  مجھے ان کی یہ عادت بہت پسند تھی۔ امی کی بہت ساری پیدا کی ہوئی بدگمانیاں اور پرانی کہانیاں  ان کے اس طرح ملنے پر ہمارے ذہن سے نکل جاتی تھیں۔ اور ان کی جگہ محبت اوراپنائیت لے لیتی تھی۔

تھوڑی دیر بعد پھپھو سٹیل کی ٹرے میں چائے لے آئیں۔ ساتھ ہی بیکری کے بسکٹ۔ جو امی کو شروع سے ہی ناپسند تھے۔ ’’ہونہہ! زیب النسا ء کے گھر جاؤتو کیا رکھتی ہے آگے۔ کالی چائے اور کھلے بد مزہ بسکٹ۔ ‘‘ گھر میں تو ہم سب امی کے اس جملے پر ان کی ہاں میں ہاں ملایا کرتے تھے لیکن سچی بات ہے پھپھو کے گھر کی کالی چائے اور کھلے بسکٹ بہت مزے کے لگتے تھے۔ ہم جلدی جلدی کھانے لگے تو امی نے گھور کر دیکھا ۔ ہم نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور چائے کے کپ کی طرف بڑھادیا۔ امی نے تو گاڑی میں منع  بھی  تھاکہ وہاں تم نے چائے نہیں پینی ۔ پتہ نہیں زیب النساء نے کچھ ملایا ہوا نہ ہو اس میں۔ لیکن ہم سب بہن بھائیوں کو الائچی والی چائے کی اتنی خوشبو آرہی تھی کہ ہم سب نے ایک ایک کپ اٹھا لیا۔  

تھوڑی دیر بعد امی اٹھ کر پھپھو کے جیٹھانی سے ملنے چلی گئیں۔ وہ بھی ہمارے دور کی رشتہ دار تھیں۔ پھپھو نے یہ موقع غنیمت جان کر ابو کو بتایا کہ آنے والے دنوں میں پھپھا جان ریٹائر ہونے والے ہیں۔ انہیں بڑی بیٹی نائلہ کی شادی کرنی ہے  تو۔۔ ابھی انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ ابو نے والٹ سے پندرہ  ہزار نکال کر ان کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ آج سے   بیس پچیس سال پہلے یہ رقم اچھی خاصی ہوتی تھی۔  ’’زیبو ابھی اتنے ہی ہیں۔ میں پھر چکر لگاؤں گا۔ ‘‘یہ کہہ کر ابو نے ان کے سر پر ہاتھ رکھ دیا تو پھپھو آبدیدہ ہو گئیں۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ ابو کے ہاتھ چوم لیں لیکن امی واپس آچکی تھیں اور کڑی نظروں سےان کے ہاتھوں میں پکڑے نوٹوں کو گھور رہی تھیں۔

زندگی اسی ڈگر پر روانہ تھی ۔ بلکہ اب تو امی نے ابو کا وہاں جانا تقریباً بند کروادیا تھا۔ جب بھی ابو پھپھو کے گھر جانے کی بات کرتے یا پھپھو کے ہمارے گھر آنے کی بات ہوتی تو امی سر پر دوپٹہ لے کر لیٹ جاتیں اور کسی کی بات کا جواب نہ دیتیں۔ آخر کار ابو کو ہار ماننا پڑی۔ مدد کرنا تو دور کی بات تھی اب تو بس شادی یا فوتگی پر کھڑ ے کھڑے پھپھو ابو سے حال چال پوچھتیں اور بس۔

 

جب سے پھپھو کے بیٹے نے دوسری شادی کی تھی تب سے ابو کا وہاں جانا اور پھپھو کا ہمارے گھر آنا حرام قرار دیا جاچکا تھا۔ امی کے بقول ایسے آوارہ لوگوں سے میل جول ہمارا بنتا ہی نہیں۔ایسے لوگوں سے  ہم نے تعلق نہیں رکھ سکتے۔ ہماری بھی بیٹیاں ہیں ۔  (جاری ہے)