صبح سویرے دادی جان لاٹھی ٹیکتی ہوئیں حذیفہ کے کمرے میں آئیں تو وہ بال بنائے آنکھوں پر بلیک گلاسز چڑھائے آئینے میں اپنا تنقیدی جائزہ لینے میں مصروف تھا۔

’’بیٹاکیاکررہے ہو۔ ‘‘
’’میں کیسالگ رہاہوں دادی جان !‘‘ اس نے پلٹ کردادی جان کی طرف دیکھا۔
’’ہائیں یہ کیا حلیہ بنارکھاہے ؟‘‘ انہوں نے حیرت سے اسے سرسے پاؤں تک غورسے دیکھا۔ دادی جان نے اس کی پینٹ شرٹ کے رنگ کو بالکل پسند نہیں کیا۔

’’ اوہو! دادی جان میں ہیروہوں ہیرو! اور اس کے لیے یہ کپڑے پہننا ضروری ہیں۔ ہمارے اسکول میں آج ایک ٹیبلو ہے جس میں مجھے ہیروکاکردار کرناہے پھردیکھنادادی جان میں مشہورہوجاؤں گا۔لوگ آپ کے پوتے سے آٹوگرف لیں گے فوٹوز بنانے میں فخرمحسوس کریں ۔آہاکتنامزہ آئے گاپھرمیں خوش ہوجاؤں گا اور بہت پر سکون!‘‘ وہ آنکھیں بند کئے پرجوش انداز میں سپنوں کی وادی میں سفر کررہاتھاا ور دادی جان یک ٹک اسے دیکھے جارہی تھیں۔

’’حذیفہ!‘‘آخر دادی جان نے اسے ٹوکا۔
’’جج جی! دادی جان!‘‘ وہ حال میں آکھڑا ہوا
’’دیکھوبیٹاجو اللہ اور اسکے رسولﷺ کی بات مانے اور دوسرے لوگوں کے کام آئے بوڑھے لوگوں کی مدد کرے وہ اصل ہیروہوتا ہے اور اللہ سوہنابھی اسے پسند کرتاہے اور سچ میں وہ ہیروبن جاتاہے ۔  جو اسکے خلاف کرے وہ زیرو ہوتا ہے اور اسے گناہ بھی ملتاہے کوشش کرنابیٹاکہ اصل  ہیروبن سکو۔‘‘ دادی جان نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرااور اپنی مسہری کارخ کیا۔

پوراہال حذیفہ کی خوبصورت ایکٹنگ پر جھوم اٹھا ۔تالیوں کی گونج میں اسے خوبصورت شیلڈ سے نوازاگیا۔خوشی میں اسکے تو پاؤں نہ زمیں پر ٹکتے تھے ۔گھر والوں نے بھی خوب تعریف کی لیکن نہ جانے کیوں لمحہ بہ لمحہ اسے کوفت ہونے لگی ۔اس خوشی  کے عالم میں بھی اس کادل بجھنے سالگا۔وہ بے قرار ہو کر گھر سے نکل آیااور سوچنے لگا۔

’’میں مطمئن کیوں نہیں ہوں ۔ میں تو بہت کامیاب رہا ہوں آج۔ سبھی نے میری بے حد تعریف کی ہے لیکن وہی پر فارمنس مجھے ڈسٹرب کیوں کررہی ہے۔‘‘
چلتے چلتے اسکی نظر سامنے ایک جھونپڑے پر جاپڑی جہاں ایک ضعیف العمرلاوارث بڑھیارہتی تھی۔ وہ کچھ سوچ کر آج پہلی باراس جھونپڑے میں داخل ہوا جہاں ہر چیز گردوغبار سے اٹی تھی ۔اس کا دل متلانے لگا۔ نہ جانے کیوں اس کے ہاتھ ایک کونے میں پڑی جھاڑو کی جانب بڑھ گئے۔  

بڑھیا سور رہی تھی۔ حذیفہ  خاموشی سے جھوپنڑے کی صفائی کرتا رہا۔ پھر برائے نام برتنوں کو صاف کر کے سلیقے سے رکھ کر ہٹاہی تھاکہ اسکاپاؤں ٹوٹی چارپائی سے ٹکراگیاجس کی وجہ سے بڑھیاچونک کر بیدار ہوگئی۔
’’کک۔۔کون ہو۔‘‘بوڑھی عورت ہکلائی۔ وہ خاموش رہا۔
’’پپ پانی!‘‘ وہ کراہ کر بولی۔
حذیفہ نے پانی کا گلاس جھجکتے ہوئے اس کے کانپتے ہاتھوں میں تھمادیا۔

’’اماں جی! پانی لے لیں۔‘‘ حذیفہ نےکہا۔

 وہ پانی پیناہی چاہتی  تھی کہ اسے کھانسی کانہ رکنے والادورہ پڑگیا۔ تکلیف سے اسکے آنسو بہنے لگے۔

 حذیفہ نے جیب میں پیسوں کی موجودگی کایقین کرکے قریبی اسٹور کی طرف دوڑ لگادی جیسے ہی وہ واپس پلٹاتو اس کے ہاتھ میں کھانسی کا سیرپ موجود تھا۔اس نے سیرپ اماں کی طرف بڑھایا۔اماں نے  جلدی سے گھونٹ بھرا ۔ اگلے کچھ لمحون بعد وہ پرسکون ہوچکی تھی۔ اس نے حذیفہ کو تشکر آمیز نگاہوں سے د یکھتے ہوئے سر پر دست شفقت پھیرا اور ایک ہی سانس میں اسے دنیاوآخرت کی نجانے کتنی دعائیں دے چکی تھی۔

 جھونپڑی سے باہر نکلتے ہوئے حذیفہ کو ایسامحسوس ہورہا تھا کہ  کسی نے جیسے اس کے انگ انگ میں خوشی پھونک دی ہو۔ اس کے جسم میں سکون کی لہر دوڑ گئی  تھی۔ وہ جان گیاتھا واقعی اصل ہیرو اسلام کے ہواکرتے ہیں جو دوسروں کے کام آئیں۔ وہ عزم کرتے ہوئے باہر نکلاکہ وہ اسلام کا ہیروبنے گا۔