تین ماہ پہلے میں نے Fortsworth میں ایک مسجد میں خطبہ دیا۔ میں اس مسجد میں کوئی چار پانچ سال بعد آیا تھا۔ کسی وجہ سے انہوں نے مجھے خطبہ دینے کی دعوت دی۔ میرا خطبہ "دعا" کے موضوع پہ تھا۔

ایک جوان مصری میرے پاس آیا اور کہا کہ اللہ تعالٰی نے آج میری دعا قبول کر لی ہے۔ میں نے پوچھا آپ کی دعا کیا تھی؟ اس نے کہا کہ میری دعا تھی کہ نعمان علی خان، رابرٹ Rober Davilla سے ملیں۔ میں ہنس پڑا اور کہا کہ آپ رابرٹ ہیں؟ اس نے کہا "نہیں Robert Davilla میرا دوست ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے میری دعا قبول کی ہے۔" میں نے کہا بتائیے میں سننا چاہتا ہوں۔ "

          رابرٹ، ایک جوان آدمی تھا اور وہ Fortsworth    سے 40 منٹ کی مسافت میں ایک قصبہ میں رہتا تھا۔ وہ ایک کسان تھا لیکن وہ ایک کسی جینیاتی بیماری کا شکار ہوا جس نے جوانی میں اپنا اثر دکھایا اور گردن کے نیچے اس کا تمام جسم مفلوج ہو گیا۔ وہ اب nursing  home میں رہتا ہے۔ زیادہ تر لوگ اس nursing home میں 80 یا 90 سال کے ہیں۔ اور پھر وہ ہے تیس سال کا جوان آدمی۔ وہ 10 سال سے اس nursing home میں ہے۔ اس کی فیملی نے اس کو ایک کمپیوٹر لے کر دیا ہے جو کہ آواز کے سہارے چلتا ہے( computer ? that operates on voice commands) تاکہ وہ آواز کے ذریعے Google کر سکے۔ چیزوں کو search کر سکے۔ معلومات حاصل کر سکے۔ اس کا بہترین دوست اس کے کمرے میں موجود مریض تھا ۔ جس سے اس کی ملاقات nursing home میں ہوئی۔ اس کے دوست کو جگر کے ٹرانسپلانٹ( liver transplant) کی ضرورت تھی۔ اور وہ ہر وقت خدا کے بارے میں باتیں کرتے تھے۔ وہ دونوں کرسچن کافی گہرے دوست تھے۔ اس کے دوست کو اطلاع دی گئی کہ ایک ڈونر مل گیا ہے۔

وہ بہت خوش ہوا اور اس نے کہا کہ "رابرٹ میں تمہیں بہت یاد کروں گا مگر اب مجھے جانا ہو گا۔" تو اس کے دوست کا آپریشن ہوا مگر اس کی operation table پر ہی موت واقع ہو گئی۔ مرحوم دوست کی بہن نے اس کا کراس( صلیب کا نشان )رابرٹ کو یادگار کے طور پر دے دیا اور اس کے بستر کے ساتھ کراس لٹکا دیا۔ رابرٹ نے بڑی شریفانہ زندگی گزاری ہے اور نرسیں اس کا بہت اچھا خیال رکھتی ہیں۔ وہ خوش ہے۔ ایک دن رابرٹ نے خواب میں ایک آدمی کو دیکھا۔ اس آدمی نے اپنا نام محمد صل اللہ علیہ و السلام بتایا۔ اور کہا کہ اللہ تعالٰی نے انبیاء کو اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ لوگ انبیاء کرام کی عبادت شروع کر دیں۔ اللہ تعالٰی نے انبیاء اس لیے بھیجے تاکہ لوگ اللہ تعالٰی کی عبادت کریں۔ اور عیسی علیہ السلام ایک بشر( انسان ) تھے جو بازاروں میں چلتے پھرتے اور کھاتے پیتے تھے۔ اوت بس خواب ختم۔ رابرٹ کو بس اتنا یاد رہا کہ عیسی علیہ السلام ایک انسان تھے۔ اور یہ بات اسے ایک بندے محمد صل اللہ علیہ و السلام نے بتائی۔ اس نے محمد صل اللہ علیہ و السلام کو Google کیا اور اسلام کو پا لیا۔ اور اس نے شہادت دی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ جب شہادت دی تو اب وہ قرآن پڑھنا چاہتا تھا۔ تو وہ Google پہ search کرتا رہا اور آخر کار اسے ایک مصر کے ایک برادر ملے جن سے وہ  Skype پہ قرآن پاک کی حروف تہجی سیکھنے کی کوشش کرنے لگا ۔ جب حروف پڑھنا آ گئے تو قرآن کی تلاوت آسان ہو گئی۔ اس نے بستر پہ مفلوج لیٹے لیٹے سات سورتیں حفظ کر ڈالیں۔ اب اسے لگا کہ قرآن سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ تو اس نے Google کرنا شروع کیا کہ قرآن کیسے سمجھا جائے؟ اور کسی طرح اسے میری videos مل گئیں۔اس نے میری ساری videos دیکھ ڈالیں۔ اب آگے کا دلچسپ قصہ سنیں۔ Nursing home میں ایک مصری شخص تھا جو مرمت وغیرہ کا کام کرتا تھا۔ وہ کوئی زیادہ مزہبی نہیں تھا اور جمعہ کی نماز پڑھنے بھی کوئی خاص نہیں جایا کرتا تھا کیونکہ سب سے قریبی مسجد 50 میل دور تھی۔لیکن اسے روحانی خلا محسوس ہوتا تھی۔ لہذا اس نے خود کو اللہ کے قریب محسوس کرنے کے لیے گرجا گھر جانا شروع کر دیا۔ وہ مسلمان تھا لیکن گرجا گھر اس لیے جاتا تھا کہ کسی طرح اللہ کو خود سے قریب محسوس کر سکے۔ ایک دن وہ رابرٹ کے کمرے کے پاس گزرا تو اس نے تلاوت کی آواز سنی والعصر ان الإنسان لفی خسر۔ تو وہ اس کے کمرے میں گیا اور پوچھا کہ رابرٹ یہ تم کیا سن رہے ہو؟ رابرٹ نے کہا کہ میں سن نہیں رہا۔ میں خود تلاوت کر رہا ہوں۔ مصری نے کہا کہ تم مسلمان ہو؟ رابرٹ نے جواب دیا الحمدللہ۔ میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ مصری شخص کو جھٹکا لگا کہ اللہ تعالٰی کیسے ایک شخص کو ہدایت سے نوازتا ہے؟ ایک بندہ جو امریکہ کے گاؤں میں نرسنگ ہوم میں معذور ہو کر لیٹا ہے اس کے بستر سے صلیب کا نشان لٹک رہا ہے اور اس کو اتارنے کی بھی طاقت نہیں ہے اس شخص میں۔ مصری شخص نے کہا کہ میں اللہ کی طرف لوٹنا چاہتا ہوں۔ رابرٹ نے اسے اپنے ایک دوست کا بتایا، نعمان علی خان، کا تو مصری نے بھی میری videos دیکھنا شروع کیں۔ پھر رابرٹ نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ میں ایک دن نعمان علی خان سے ملوں۔ مصری نے کہا کہ میں تمہارے لیے دعا کروں گا۔ اور پانچ سال بعد وہ مصری شخص اسی مسجد میں آیا جس مسجد میں، میں چار سال بعد گیا تھا۔ اور جمعہ کے بعد اس نے مجھے کہا کہ اللہ تعالٰی نے میری دعا قبول کر لی ہے۔ میں نے کہا مجھے بھی یہی لگتا ہے۔ آئیے چلتے ہیں۔ میں نے اپنے کچھ دوستوں کو ساتھ لیا اور ہم رابرٹ سے ملنے گئے۔ ہماری بہت خوبصورت گفتگو ہوئی۔ اور انشاءاللہ ہم اس عید دوبارہ جائیں گے۔ وہاں کی نرسیں ہمیں دیکھ کے بڑا حیران ہوئیں۔ کہ

" آپ سب  رابرٹ سے ملنے آئے ہیں۔"؟

 "جی ہاں

لیکن کیوں

 "ہم رابرٹ سے بہتimpressed   متاثر ہیں۔ "

انہوں نے کہا کہ ہمیں انتظامیہ سے رابطہ کرنا ہو گا۔ ہسپتال کے اصول ہیں وغیرہ وغیرہ۔

آخر کار ہمیں اجازت ملی اور رابرٹ حیران رہ گیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ سنا ہے آپ نے چند سورتیں حفظ کی ہیں تو سنائیے۔ اس نے سورۃ العصر کی تلاوت کی اور یقین جانیں ہم میں سے کوئی ایسا  نہیں تھا جس کی آنکھوں میں آنسو نہ ہوں۔ جب آپ اللہ کی طرف جاتے ہیں تو یقین جانیں ہدایت ملے گی ہدایت آئے گی۔

میں آپ کو رابرٹ کے بارے میں کچھ اور بتانا چاہتا ہوں۔ بہت سے نوجوان یہاں بیٹھے ہیں۔نوجوان جو  صحت مند ہیں، چلتے پھرتے، بھاگتے دوڑتے ہیں۔ اور میں نے کیا بتایا کہ رابرٹ کی معذوری کہاں سے کہاں تک ہے۔ گردن سے نیچے کا سارا جسم مفلوج ہے۔ وہ کسی عام wheel chair پر نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کے لیے ایک مخصوص wheel chair ہے جو اس کی گردن کو سہارا دے سکے۔ اس کے بازو اور ٹانگوں کو جگہ پہ رکھ سکے۔ اور اگر گاڑی میں جانا ہو تو ایک خاص گاڑی ہے جس میں یہ wheel chair رکھی جا سکتی ہے۔ تاکہ گاڑی اگر کسی ناہموار جگہ سے گزرے تو رابرٹ کو جھٹکا نہ لگے۔ اب رابرٹ نے درخواست کی کہ وہ نماز جمعہ کے لیے چاہتا ہے۔ ان کے پاس مخصوصہ گاڑی نہیں تھی۔ تو انہوں نے اسے عام گاڑی میں بھیج دیا۔ تھوڑے بہت جھٹکے لگے اور اس کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی۔ جب وہ واپس آیا تو شدید درد و تکلیف میں تھا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ رابرٹ ہمیں افسوس ہے کہ اب آپ چھ ماہ تک wheel chair پہ نہیں بیٹھ سکتے۔ آپ کو اگلے چھ ماہ بستر پر گزارنا ہوں گے۔ اس کے بعد اگر بہتری ہوئی تو آپ wheel chair پہ بیٹھ سکتے ہیں۔ میں جب رابرٹ سے ملا تع وہ تین ماہ سے بستر میں تھا کیونکہ وہ جمعہ پڑھنے گیا تھا۔ اس نے مجھے بتایا زندگی میں کبھی اتنا سکون نہیں ملا جتنا نماز جمعہ میں اور پتہ ہے نعمان بھائی! میں جب دوبارہ اپنی wheel chair پہ بیٹھنے کے قابل ہوا تو میں دوبارہ جمعہ پڑھنے جاؤں گا۔

ایک ایسا انسان جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے سوائے اپنی آنکھوں اور زبان کے،اسے مسجد میں سکون ملتا ہے۔ اور ایک ہم ہیں۔ مجھے نہیں پروا کہ مسجد میں کیا عقیدہ، کیا مکتبہ فکر ہے یا کس طرح کا خطبہ دیا جا رہا ہے۔ مسجد اللہ کا گھر ہے۔ وہاں نماز پڑھیں۔ لوگوں سے نہیں، اللہ تعالٰی سے باتیں کرنے جائیں۔ اور بس۔

اگر اللہ تعالٰی رابرٹ کو ہدایت دے سکتے ہیں تو کسی کو بھی۔ رابرٹ کہتا ہے میں کبھی مبھی سوچتا ہوں کہ کہ مجھے یہ بیماری کیوں عطا ہوئی۔ پھر میں اس  سوچ کو جھٹک دیتا ہوں کہ اللہ تعالٰی نے مجھے اتنا کچھ عطا کیا، ہدایت دی اسلام دیا۔ اگر اسلام کی طرف لانے میں یہ معزوری میری مددگار ثابت ہوئی ہے تو یہ برا سودا نہیں۔ کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر کوئی انسان کا یہ کہہ سکتا ہے کہ میں خدا پہ یقین نہیں رکھتا اگر اللہ تعالٰی ہوتے تو میں اس حال میں کیوں ہوتا تو وہ رابرٹ ہے۔ لیکن وہ اس حال میں ہے کہ میں نے اس سے زیادہ پر نور چہرہ کوئی اور نہیں دیکھا۔ وہ زندگی سے اس قدر مطمئن ہے۔ خوش ہے آخری سات آٹھ خطبات جو میں نے دیے وہ دوران گفتگو اس کی کسی نہ کسی بات کا نچوڑ ہیں۔ وہ اتنا زبردست ہے کہ میرا ستاد ہے۔ مجھ سے کوئی پوچھے کہ آپ کا شیخ کون ہے تو میں کہوں گا؟  Robert Davilla۔

ہدایت کے لیے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ صرف دعا کریں۔ ہدایت ہمارے آس پاس ہمارے ارد گرد ہے۔ پتہ ہے اللہ تعالٰی نے اصحاب کہف کے ساتھ کیا معاملہ کیا اللہ تعالٰی نے انہیں جگہ تک بتائی جہاں سونا ہے۔ جہاں کروٹ لینی ہے۔ سورج ان کی طرف آتا تو وہ کروٹ بدل لیتے، دوسری طرف سورج آتا تو وہ کروٹ بدل لیتے۔ اللہ تعالٰی آپ کو نیند میں بھی ہدایت دیں گے۔ ہر موڑ ہر، ہر رخ پر ہدایت آئے گی۔ ہمیں اللہ کی رہنمائی پہ شک نہیں ہونا چاہیے یہ میرا پیغام ہے۔ اگر آپ یہ کریں گے تو اللہ تعالٰی آپ کے لیے دروازے کھول دیں گے۔ آپ کو ایسے دوست عطا کریں گے۔ آپ کو انresources کے پاس لے جائیں گے۔ ان تمام چیزوں کے جو آپ کو اللہ تعالٰی کے قریب سے قریب  تر۔