انٹرویو کے لیے آنے والا ، جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس نوجوان کمرے میں داخل ہو رہا تھا۔ حامد صاحب نے میز سے اپنی عینک اٹھاتے ہوئے اسے غور سے دیکھا۔ نوجوان پر اعتماد تھا اور اس نے آتے ہی اپنی فائلیں بڑے سلیقے سے حامد صاحب کے سامنے رکھ دیں ۔ انہوں نے ہاتھ سے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اس کی فائل پر لکھا نام پڑھنے لگے۔ ’’علی احمد‘‘ حامد صاحب کو نام کچھ جانا پہچانا سا لگا۔ سوالات کا سلسہ شروع کرنے سے پہلے انہوں نے ایک بار پھر نوجوان کابغور جائزہ لیا۔ ان کے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔
یہ دو دسمبر2006 کی ایک سرد ترین صبح تھی۔ حامد صاحب نے آج لاہور بہت ضروری کام سے جانا تھا۔ فضا میں دھند چھائی ہوئی تھی اور سفر بھی چار پانچ گھنٹے کا تھا۔ حامد صاحب اکثر لاہور کاروباری دوروں پر جاتے رہتے تھے لیکن آج نہ جانے کیوں ان کا دل بے چین سا تھا۔ خیر انہوں نے بیوی بچوں کو الوداع کہا، ضروری سامان گاڑی میں رکھا اور روانہ ہو گئے۔
یہ ایک سنسان سی سڑک تھی۔ اک دکا ٹریفک آجا رہی تھی۔ حامد صاحب آدھے سے زیادہ سفر طے کر چکے تھے۔لاہور اب قریب ہی تھا۔ ان کی گاڑی کے آگے ایک ٹرک نہایت سست رفتاری سے چل رہا تھا۔ انہوں نے کئی ہارن دیے لیکن ٹرک ڈرائیور کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ آخر کار حامد صاحب نے ایک نظر بیک مرر میں دیکھا پھر تھوڑا سا ترچھا ہو کر مخالف سمت کی ٹریفک کو دیکھنا چاہا لیکن دھند کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا۔ یہ ایک بڑا رسک تھا لیکن نہ جانے کیوں حامد صاحب کے پاؤں ریس پر بڑھتے چلے گئے اور وہ ٹرک کو تیزی کے ساتھ اوور ٹیک کرنے لگے۔ یہی ان کی غلطی تھی کیونکہ مخالف سمت سے آنے والی تیز رفتار کار ایک دھماکے سے انکی گاڑی کے ساتھ ٹکرا گئی۔ انہیں ایسا لگا کہ جیسے بے شمار کانچ کے ننھے ننھے ٹکڑے ان کے جسم میں پیوست ہو گئے ہوں ۔ بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ انہوں نے ایک نوجوان کو اپنی طرف آتے دیکھا پھر انہیں کوئی ہوش نہ رہا۔
’’ڈاکٹر کا کہنا ہے بس تھوڑی دیر تک انہیں ہوش آ جائے گا۔ آپ لوگ فکر نہ کریں۔‘‘ علی احمد نے حامد صاحب کے دونوں بیٹوں کو تسلی دی۔ یہ لاہور کا ایک بڑا اور مشہورپرائیویٹ ہسپتال تھا۔ ’’بھائی جان! ہم آپ کے بہت ہی احسان مند ۔۔‘‘ حامد صاحب کے بیٹےجاوید نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن علی نے اس کی بات کاٹ دی اور مسکراتے ہوئے بولا۔’’یہ میرا فرض تھا۔ آپ کے والد اتنی زخمی حالت میں تھے۔ بس یہ تو اللہ تعالیٰ ہی نے مددکرنے کا خیال دل میں ڈالا۔ اس میں میرا تو کوئی کما ل نہیں! آپ لوگ یہیں ٹھہریں میں آپ لوگوں کے لیے چائے لے کر آتا ہوں۔‘‘
حامد صاحب اب ہوش میں آ چکے تھے اور کمزور سی آواز میں بچوں کو تسلی دے رہے تھے۔ ان کے سب رشتہ دار کراچی میں ہوتے تھے اور بس وہ اپنی چھوٹی سی فیملی کے ساتھ اسلام آباد میں رہائش پذیر تھے۔ دونوں بیٹے کم عمر تھے جبھی بہت پریشان اور بوکھلائے ہوئے تھے۔ دریں اثنا علی احمد چائے لے کر اندر داخل ہوا۔ ’’ابو جان! یہی وہ اچھے بھائی ہیں جنہوں نے آپ کو ٹیکسی میں ڈالا اور یہاں تک لائے۔ ‘‘ اختر فوراََ ہی بول اٹھا۔ حامد صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے علی احمد کو پاس بلایا اور کہنے لگے۔’’بیٹا! میں آپ کا کس طرح شکریہ ادا کروں۔۔۔‘‘ علی احمد نے مسکراتے ہوئے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا ۔’’آپ میرے والد کی طرح ہیں اور والد اپنے بیٹوں کا شکریہ ادا نہیں کیا کرتے ۔ ‘‘
’’لیکن بھائی جان! آپ اسلام آباد کیوں جا رہے تھے ؟ آپ کی فیملی ہوتی ہے وہاں؟‘‘ باتونی اختر میاں اتنی دیر سے نہ جانے کیسے خاموش رہ گئے تھے۔آخر کار بول ہی اٹھے۔ ’’ہاں ! میں کچھ ضروری کام سے جا رہا تھا۔‘‘ پھر وہ حامد صاحب کی طرف رخ کرتے ہوئے بولا۔’’اب مجھے اجازت دیجیے۔ کافی دیر ہو گئی ۔ میری امی جان پریشان ہو جاتی ہیں۔ ‘‘ اور وہ جلدی سے سب سے ہاتھ ملا کر کمرے سے نکل گیا۔
بعد میں انہیں ریسپشن سے بتایا گیا کہ آپ کےکافی اخراجات تو علی احمد ادا کر چکے ہیں۔ حامد صاحب اس اجنبی نوجوان کے بے حد مشکور ہو چکے تھے اس کی عظمت تو ان کے دل میں اور زیادہ بڑھ گئی جب ریسیپشن پر کام کرنے والے سے ان کی تفصیلی گفتگو ہوئی۔’’آپ اصرار کرتے ہیں تو بتائے دیتا ہوں حالانکہ علی میاں نے تو بہت سختی سے منع کیا تھا لیکن میں نے سوچا اچھائی والی بات کو آگے پھیلانے میں کوئی حرج نہیں۔ اصل میں ہم انہیں بہت عرصے سے جانتے ہیں۔کافی عرصہ یہ ہمارے پڑوسی رہے ہیں۔ اللہ نے بہت ہی کھلا دل دیا ہے ان کو حالانکہ نوکری تو بس عام سی ہی ہے ان کی۔ علی میاں نے اپنی فیس کے پیسوں سے آپ کےابتدائی اخراجات اد ا کر ڈالے۔میں نے بہت روکا لیکن نہ مانے۔کہنے لگے کہ ایڈمیشن تو اگلے سال ہو جائے گا لیکن خدمت کی تو کوئی قضا نہیں۔ آپ کے بیوی بچے تو ابھی راستے میں تھے۔ ظاہری بات ہے دھند کی وجہ سے چند گھنٹوں کا سفر کئی گھنٹوں میں ہی مکمل ہوا ہو گا لیکن فوری آپریشن کے لیے تو مزید پیسوں کی ضرورت تھی۔ بس جی! ایسے نیک لوگ اب کہاں ملتے ہیں دنیا میں۔‘‘ وہ تو نہ جانے کیا کچھ بتائے جا رہا تھا لیکن حامد صاحب کی زبان گنگ تھی۔ خود غرضی اور منافقت کے اس جہان میں اتنا مخلص انسان بھی کوئی ہو سکتا ہے؟علی عباس غریب تھا لیکن ان کے نزدیک ساری دنیا کے امیر لوگ اکھٹے ہو جاتے تو علی احمد ان سب سے زیادہ امیر شخص تھا کیونکہ اس کے پاس ایک نہایت قیمتی چیز تھی۔ بے لوث خدمت اور محبت سے بھرا خوبصورت دل۔۔۔ ایک انمول خزانہ!
آج سات سال بعد وہی علی احمد ان کے سامنے بیٹھا تھا اور وہ یقیناََ انہیں پہچان نہیں پایا تھا۔ حامد صاحب نے اس کی ساری فائلیں ایک ایک کر کے دیکھیں، پرکھیں اور ایک سائیڈ پر رکھ دیں۔ پھر انہوں نے جھک کر دراز سے اپائینٹمنٹ لیٹر نکالا اور اس کے آگے رکھ دیا۔ ’’یہ ۔۔ یہ سر!آپ نے انٹرویو تو ۔۔‘‘ علی احمد کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہے۔’’تم نے پہچانا نہیں ۔۔۔میں سیٹھ حامد ہوں۔‘‘ حامد صاحب مسکراتے ہوئے گویا ہوئے۔علی احمد نے چونک کر انہیں دیکھا۔ ’’یہ تمہارے اس دن کے خلوص کا بدلہ نہیں ہے اور نہ ہی میں دینے کی استطاعت رکھتا ہوں۔ واقعتاََ تمہارے ریکارڈ پکار پکار کر تمہاری قابلیت اور اہلیت کا اعلان کرتے ہیں۔ اور پھر جس کا دل اتنا پر خلوص اور کردار اتنا پیارا ہو ، اللہ تعالیٰ کی مدد پر قدم پر اس ساتھ شاملِ حال ہو جاتی ہے۔ نئی جاب کی مبارک باد!‘‘ یہ کہ کر حامد صاحب اٹھے اور بازو پھیلا دیے۔ علی احمد جھلملاتی آنکھوں کے ساتھ ان کے گلے لگ گیا۔ واقعی! خلوص اور بے غرض خدمت ، زندگی کے ہر موڑ پر کامیابی کا دوسرا نام ہی تو ہے!
{rsform 7}