لطیف صاحب صبح کے گئے رات نو بجے گھر میں داخل ہوئے۔ وہ نہایت تھک چکے تھے۔ جب تک وہ گاڑی سے اترے تینوں بچے جالی والے دروازے پر آچکے تھے۔ اندر آکر انہوں نے بچوں سے ہاتھ ملایا، ان کو پیار کیا اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی چاکلیٹیں ان کو پکڑا دیں۔
اب ان کی نظریں سیما کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ اسی اثناء میں وہ بھی کچن سے نکل آئی۔ اس نے دونوں آستینیں کہنیوں تک چڑھائی
ہوئی تھیں۔ قمیص کا دامن نیچے تک گیلا تھا۔ شاید وہ برتن دھو رہی تھی۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔ لگتا تھا صبح سے ان کو کنگھی نصیب نہیں ہوئی۔ لطیف صاحب قریب آئے تو سیما نے سلام کیا۔ لطیف صاحب نے جواب تو دیا لیکن وہ مسکرا نہیں سکے۔ سیما نے نیلی قمیص کے نیچے کسی اور ہی سوٹ کی شلوار پہن رکھی تھی اور دوپٹہ تو تھا ہی کئی دن کا میلا کچیلا۔ لطیف صاحب کا دل بجھ گیا۔
جب وہ منہ ہاتھ دھو کر آئے ، سیما کھانے کی میز سجا چکی تھی۔ اب اس کا حلیہ قدرے بہتر تھا۔ چکن کڑاہی، مٹرپلاؤ اور ساتھ میں سلاد رائتہ۔ بلاشبہ سیما کے ہاتھ میں ذائقہ تھا۔ پہلے ہی لقمے پر لطیف صاحب کا دل خوش ہو گیا۔ کچھ دیر بعد سیما بھی لطیف صاحب کے ساتھ والی کرسی پر آبیٹھی۔ لطیف صاحب کا موڈ پھر آف ہو گیا۔ان کی بھوک اڑ چکی تھی کیونکہ سیما سے پسینے کی ناقابل برداشت بو آرہی تھی۔
یہ کوئی ایک دن کی بات نہیں تھی۔ سیما کو گھر میں ایسے ہی اول فول حلیے میں رہنے کی عادت تھی۔سیما کوئی پھوہڑ یا جاہل عورت نہیں تھی۔ وہ پڑھی لکھی اور بہت سلیقہ مند خاتون تھی۔اس کا اعتراف تو اس کا سلیقے سے سجا سجایا گھر دیکھ کر ہر کوئی کرتا تھا۔ بچے بھی سلجھے ہوئے اور ہر وقت صاف ستھرے رہتے تھے۔بات تو اس کی ظاہری شخصیت کی تھی جسے دیکھ کر کبھی کبھار کسی کام والی ماسی کا گمان ہوتا تھا۔ اگر گھر میں کوئی آجاتا یا کسی جگہ جانا ہوتا تو پھر تو سیما کی تیاریاں دیدنی ہوتیں۔ یہ سیما ہے ! کوئی پہچان نہیں سکتا تھا کہ یہ وہی خاتون ہے جو ابھی کچھ دیر پہلے تین رنگ کے میلے کچیلے کپڑوں میں کئی دن سے نہائے بغیر گھوم رہی تھی۔ اب تو لطیف صاحب دعا کرتے تھے کہ کوئی موقع آئے اور وہ پھر سے سیما کو اسی طرح تیار ہوتا دیکھیں جس طرح شادی کے اولین دنوں میں وہ ان کےلیے تیار ہوتی تھی۔
اگلے دن ہفتہ تھا۔ کئی دن سے شادی کا کارڈ آیا ہو اتھا۔دوپہر کا فنکشن تھا۔ سیما نے بھی علی الصبح جلدی جلدی سب کے کپڑے استری کر دیے۔ پھر گھر کی صفائی کرنے لگی۔ اسی اثناء میں بچے اور لطیف صاحب اٹھ گئے۔ سیما نے فریزر سے شامی کباب نکالے ، ساتھ پراٹھے بنائے اور پودینے کی چٹنی کےساتھ میز پر ناشتہ سجا دیا۔تھوڑی دیر بعد وہ گرماگرم چائے بھی لے آئی۔
’’واہ! ماما! شامی کباب!‘‘ بچوں نے میز پر آتے ہی نعرہ لگایا۔ لطیف صاحب بھی مسکرانے لگے۔ جتنی دیر میں سب نے ناشتہ کیا سیما کچن سمیٹ چکی تھی۔ خود اس نے ایک کباب چٹنی کے ساتھ کھا کر چائے پی لی تھی۔ ابھی اسے اپنی تیاری بھی کرنی تھی جس کے لیے اسے کافی وقت درکار تھا۔
اگلے ایک گھنٹے میں سیما نہا نے دھونے سے فارغ ہو چکی تھی۔ لطیف صاحب تو اسے دیکھ کر حیران ہی رہ گئے۔ میلی کچیلی سیما کا ایک نیا روپ ان کے سامنے تھا۔
پھر کچھ ہی دیر میں سیما نے نئے کپڑے پہنے، ہلکا پھلکا زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کیا اور میک اپ بھی کر لیا۔ بچے اور لطیف صاحب بھی تیار ہو چکے تھے۔سیما کے یہ بدلتے روپ لطیف صاحب کےلیے نئے نہیں تھے لیکن آج ان کا دل خوش ہونے کے باجود نہ جانے کیوں اداس ہی رہا۔
شام کو واپسی پر وہ بچوں کو پارک لے گئے۔ تینوں بچے جھولے لینے لگے جبکہ سیما اور لطیف صاحب پاس پڑے لکڑی کے ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔بادل آئے ہوئے تھے۔ بارش کا موسم بنا ہوا تھا۔ ٹھنڈی ہوا چلی رہی تھی اور درختوں کے پتے آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔
’’سیما! ایک بات کہوں!‘‘ لطیف صاحب نے آہستی سے کہا۔
’’جی کہیے!‘‘ سیما نے یکایک اسی پل لطیف صاحب کے لہجے کی اداسی کو بری طرح محسوس کیا۔
’’میری پیار ی سیما! موسم بہت خوبصورت ہے۔اگر تم میرے لیے روز ایسے ہی سجنے سنورنے لگو جیسے صرف شادی یا دعوت پر جانے کے لیے تیار ہوتی ہو۔۔۔ تو میرے دل کا موسم بھی ایسے ہی پیارا ہو جائے!‘‘ یہ کہ کر لطیف صاحب خاموش ہو گئے۔
سیمادم بخود رہ گئی۔ اسے کبھی اپنی اس عادت کا احساس نہیں ہوا تھا۔ کچھ دیر بعد ہلکی ہلکی بارش کی بوندیں گرنے لگیں تو لطیف صاحب نے مسکرا کر سیما کو دیکھا۔ سیما بھی مسکرانے لگی۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی مسکراہٹ میں سالوں کی ندامت اور شرمندگی کے آنسوبھی موجود تھے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ سب سے اچھی عورت کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا ۔ ’’ وہ عورت جو اپنے شوہر کو خوش کر دے جب وہ اس کو دیکھے۔‘‘ (نسائی 711،2۔مشکوٰۃ، ص283)
{rsform 7}