ماہم! کل جو لوگ آئے تھے ناں تمھیں دیکھنے۔ انہیں تم بہت پسند آئی ہو۔ بتول سے بڑی تعریفیں کر رہے تھے تمھاری۔ ‘‘ اماں کے لہجے میں فخر تھا۔
’’اماں! وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ کو پتہ ہے ان کے بیٹے کی ڈاڑھی ہے۔ اور مجھے کسی ڈاڑھی والے بندے سے شادی نہیں کرنی۔ ‘‘ ماہم نے ناک سکوڑتے ہوئے کہا ۔
’’ہاں! ہم اپنی بیٹی کی شادی اس کی پسند سے ہی کریں گے۔ جبر تھوڑی ہے کوئی۔ نہیں پسند تو کوئی بات نہیں۔‘‘ اماں نے ماہم کو لاڈ کرتے ہوئے کہا تو ماہم کی صراحی جیسی گردن اور اونچی ہو گئی۔ اس کے تصور میں کل کے دیکھے گئے ڈرامے کا ہیرو آگیا۔ کیا ڈیشنگ پرسینالٹی تھی اس کی۔
ہاں تو میں بھی کسی ایسے ہی بندے سے شادی کروں گی۔‘‘ اس نے اتراتے ہوئے سوچا۔ پھر اس مہینے کے ڈائجسٹ میں بھی ایک زبردست سے ہیرو کی کہانی چل رہی تھی جو ساری مشکلوں کے باوجود بھی شادی صرف ہیروئن ہی سے کرتا ہے۔ میرے لیے بھی تو کوئی ہو گا ایسا بندہ ! جو صرف مجھے ہی چاہے گا! اور جو میرا انتظار کر رہا ہو گا! سوچتے سوچتے ماہم کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی اور اس کے ہاتھ سے نئے آنے والے رشتے کی فوٹو نیچے گر پڑی۔
خوبصورت تو وہ تھی ہی اوپر سے ایم بی اے بھی کر رہی تھی۔پہلے تو خود لڑکے میں ہزار عیب نکالتی پھر آخر میں ’’اور اوپر سے اس کی تو ڈاڑھی بھی ہے۔ مجھے کسی انکل ونکل سے شادی نہیں کرنی۔ ‘‘ کہ کر صاف انکار کر دیا جاتا۔ رہیں اماں تو وہ تو آمنا و صدقنا کا نمونہ تھیں۔ جو ماہم نے کہا وہ پتھر پر لکیر ہو جاتا تھا۔ ان کے خیال میں ماہم پڑھی لکھی سمجھدار تھی اور اپنا اچھا برا جانتی تھی۔
تو بس! زندگی اسی ڈگر پر روانہ تھی ۔ پرسکون لہروں میں پتھر تب پڑا جب ماہم کے لیے امریکہ پلٹ حاشرکا رشتہ آیا۔اماں اور ماہم تو صرف تصویر دیکھ کر ہی ہاں کرنے کو تیار تھیں۔
’’اماں دیکھیں تو سہی۔ کتنا ہینڈ سم ہے۔ برانڈڈ کوٹ پینٹ پہن رکھا ہے اس نے۔ کوئی عام بات نہیں ہے۔ ‘‘ ماہم نے یوں کہا جیسے رشتہ پکا ہی ہو گیا ہو۔ اماں بھی اسے خوش دیکھ کر خوش تھیں۔
ابا شور ڈالنے لگے۔ ’’ارے تحقیق تو کرا لیتے ہیں۔ امریکہ میں کرتا کیا ہے۔ ہمیں کیا معلوم ؟ کیا ہماری لاڈوں پلی سے نوکری بھی کروائے گا؟‘‘ وہ بہت فکر مند تھے ۔اسی پریشانی اور سوال کا اظہار انہوں نے لڑکے والوں سے بھی کر دیا۔
حاشر کی بنی ٹھنی ماما مسکرائیں اور کہنے لگیں۔ ’’جی نہیں! اس کی کیا ضرورت ہے۔ حاشر وہاں ایک بڑی کمپنی میں مینجر ہے۔ اپنا فلیٹ ہے وہاں اس کا۔ ماہم کو ساتھ لے جائے گا۔ ‘‘ اماں اور ماہم تو واری صدقے جارہی تھیں۔ رات کے کھانے پر اتنی ساری ڈشز دیکھ کر ہی ابا کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اگلے ماہ کا آدھا بجٹ قربان کر دیا گیا ہے۔
خیر! تحقیقات کون کرواتا۔ ابا کے دوستوں میں اسلم کریانے والا، ریٹائرڈ ماسٹر صاحب اورمسجد کے امام صاحب ہی تو تھے۔ پھر بھی انہوں نے اپنی سی کوشش کر کے دیکھ لی۔ حاشر واقعی وہاں کسی کمپنی میں مینجر تھا۔ لیکن فلیٹ کرائے کا تھا۔ اور یہ اماں کے نزدیک کوئی ایسی اعتراض کی بات نہیں تھی۔ ’’بھئی باہر ملک میں رہنا اور اتنےاچھے عہدے پر کام کرنا ہی بڑی بات ہے۔ کیا ہوا جو اپناگھر نہیں۔ لڑکا کمانے والا اور محنتی ہے۔ بنا لے گا گھر۔‘‘ اماں نے کہا تو ابا چپ ہو رہے۔
شادی کے دن حاشر کی ماما نقلی زیورات لے کر آئیں۔ اماں نے کچھ کہنا چاہا تو کہنے لگیں۔’’ارے بہن! آپ کو تو پتہ ہے آج کل زمانہ کتنا خرا ب ہے۔ ہر وقت چوری چکاری کا ڈر رہتا ہے۔ میں نے تو بینک ہی میں رہنے دیے زیور۔ پھر ماہم کو کون سا یہاں رہنا ہے۔ ‘‘ اماں مطمئن ہو گئیں۔ ویسے بھی ماہم نے ولیمے کے چوتھے دن امریکہ چلے جانا تھا۔ ابا نے جہیز کی بجائے کیش کی صورت میں ایک بڑی رقم دی تھی ۔
ماہم کو کئی دن سے خواب میں بھی امریکہ اور وہاں کا شاندار گھر نظر آرہا تھا۔ لیکن یہ خواب اس وقت ٹوٹ کر چکنا چور ہو گیاجب ائیر پورٹ سے کیب ایک بلڈنگ کے سامنے آکر رکی۔ حاشر نے کرایہ ادا کیا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک میلے سے دروازے کے سامنے کھڑے تھے جس کے سامنے پڑا جوتوں والا میٹ اپنا اصل رنگ بھول چکا تھا ۔
’’یہ رہا ہمارا گھر!‘‘ حاشر نے ہنستے ہوئے کہا اور بادل نخواستہ ماہم کو بھی مسکرانا پڑا۔ اس کی یہ مسکراہٹ بھی غائب ہو گئی جب اسے پتہ لگا یہاں صرف ایک کمرہ ہے جس کو حاشر اپنے دوست کے ساتھ شئیر کرتا ہے ۔ باتھ روم میں بڑے بڑے لال بیگ دیکھ کر اس کی جان نکل گئی۔ کچن میں سے ناقابل برداشت بو آرہی تھی کیونکہ اس کی کھڑکی لانڈری میں کھلتی تھی۔
’’فکر نہ کرو۔ اسمتھ یہاں سے ایک مہینے بعد چلا جائے گا۔ اصل میں وہ کل ہی شفٹ ہو جاتا لیکن اچانک اس کو ساری تنخواہ گھر بھیجنی پڑ گئی۔ بس کچھ دنوں کی بات ہے۔ ‘‘ حاشر نے مسکراتے ہوئے اس کو تسلی دی اور میل کچیل سے بھرے ہوئے میٹریس پر براجمان ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’نہ جانے مجھے کس بات کی سزا ملی ہے۔ ‘‘ ماہم اکثر سوچتی رہتی۔ اب اسے نہ لال بیگوں سے خوف آتا تھا نہ لانڈری سے بو آتی تھی۔ اسے صرف اسمتھ سے ڈر لگتا تھا۔وہ لاؤنج میں سوتا تھا۔ جب تک وہ جاب پر نہ چلا جاتا ماہم کمرے سے باہر نہ نکلتی۔ بڑا عجیب سا بندہ تھا۔ رات کو آتا تو نشے میں دھت ہوتا۔
اس دن خلافِ معمول اسمتھ پہلے آگیا اور حاشر کے آنے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔ ماہم میٹریس پر بیٹھ کر اماں کی یاد کرائی ہوئی دعائیں پڑھنے لگی۔ اچانک دروازہ بجنے لگا۔
’’ہے! مجھے بھوک لگی ہے۔ کچھ کھانے کو ہے؟‘‘ اسمتھ دروازے کو ٹھوکر مارتے ہوئے بول رہا تھا۔ یقیناً وہ آج کچھ زیادہ ہی نشے میں تھا۔
’’نہیں۔ حاشر لے آئیں گے۔ ‘‘ ماہم نے انگریزی میں چلا کر کہا تاکہ وہ چلا جائے ۔واقعی کچن میں کچھ نہیں تھا ۔ یہ اس کا پاکستا ن والا گھر تھوڑی تھا جہاں اماں ابا ہر پہلی کو کیش اینڈ کیری سےلدے پھندے گھر آتے تھے۔ جیم، کیچپ، نوڈلز، میکرونیز، دہی، انڈے، بریڈ، تازہ پھل ، مٹن اور بیف۔۔ ان سب کا ذائقہ اب ماہم کے لیے ایک خواب بن چکا تھا۔
’’کھولو! کھولو! مجھے کچھ نہیں پتہ ! کھولو!‘‘ یہ کہتے ہوئے اسمتھ دروازے کو زور زور سے ہلانے لگا۔ ماہم کا دل پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔ اچانک دروازہ ٹوٹ کر گر گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاشر ڈبلی کیٹ چابی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو سامنے اسمتھ کا بیڈ خالی پڑا تھا۔
’’لو ! ہو گیا کہیں نشے میں پڑا ہوا۔ ہونہہ! خود ہی چھوڑ جائیں گے صبح سیکورٹی والے ۔ ‘‘ وہ بڑبڑاتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ سامنے ہی میٹریس پر اسمتھ اب خراٹے لے لے کر سو رہا تھا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہم پاکستان آچکی ہے۔ حاشر اسمتھ کو قتل کرنے کے چکر میں جیل میں قید ہو چکا ہے۔ اب اماں ماہم کی ہر بات پر آمین نہیں کہتیں نہ ہی ماہم کو ابا سے بحث کرنے پر منع کرتی ہیں۔ اس کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ ماہم اب خاموش ہے۔ دور کہیں خلاؤں میں گھورتی رہتی ہے۔اسے سمجھ نہیں آتی اماں کیوں روتی ہیں ۔ ابا اٹھتے بیٹھتے آہیں کیوں بھرتے ہیں۔ اس کے خیال میں سارا قصور اس کا اپنا ہے۔ کیا واقعی؟؟؟
{rsform 7}