شرارتی کِن کِن

          Print

کاشف نےاس شخص کی خستہ حالی اور مجبوری دیکھ کر اسے وہاں سے گزرنےکی اجازت دے دی۔ مگر 15منٹ بعد ہی کاشف کو خیال آیا کہ دیکھوں کہ وہ آدمی بستی پہنچ گیا کہ نہیں۔جنگل کی کچی پگڈنڈی پر چلتے ابھی وہ کچھ آگےہی گیا تھا  کہ درختوں کے درمیان دو تین مرتبہ ٹارچ کی تیز روشنی نظر آئی۔کاشف اس جلتی بجھتی روشنی کے تعاقب کرتے جب قریب پہنچا

تواسے دیکھ کرایک ہیولا بہت تیزی سے آگے کی جانب بھاگا۔کاشف نےپیچھا کرنے کوشش کی مگر وہ بہت پھرتی سے جنگل

کے اندھیروں میں گم ہوگیا۔ اب ہیڈ کواٹر اطلاع دینا ضروری ہو گیا تھا۔

...........................

کاشف ملک کے ایک ایسے ادارے کے ساتھ منسلک تھا جہاں فوج کے لیےمختلف قسم کے ہتھیا ر تیار کیے جاتے تھے،اسی وجہ سے یہاں بہت سخت پہرہ دیا جاتا تھا۔یہ لیبارٹری آبادی سے دور بیابان میں تعمیرکی گئی تھی تاکہ عام افراد کی نظر اور پہنچ سے دور رہے۔ اس کےپیچھے دور تک پھیلاجنگل کا سلسلہ تھا جس کے آخر میں ایک چھوٹا سا قصبہ بھی تھا۔ جنگل سے گزرتا ہوا ایک کچا راستہ اس قصبے اور ادارے کی عمارت کو ملاتا تھا مگر سکیورٹی کی بنا پریہ راستہ عام لوگوں کی آمد و رفت کے لیے بند تھا ۔ 

 کاشف بھی وہاں ایک سپاہی کی حیثیت سے تعینات تھا۔ ایک رات جب وہ جنگل کی طرف حفاظتی ڈیوٹی پر تھا ۔ رات کا آخری پہرجب ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔ ایک آدمی آج جنگل والے راستے سے گاؤں کے لیے گزرا تھا۔ جب کاشف نے اس کو روک کر پوچھ گچھ کی تو اس نےاپنا نام اقبال بتایا، ساتھ ہی اپنا شناختی کارڈ بھی دکھایا۔اقبال کے مطابق آج شام اسے گاؤں پہنچنا تھا مگر بس نے اسے راستے میں دور ہی اتار دیا کیونکہ آگے لینڈسلائیڈنگ کی وجہ سے راستے مکمل بند ہو چکے تھے۔ اب اسکے پاس جنگل والے راستے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔اقبال کی روداد سن کر کاشف نے اسے جانے کی اجازت دے دی تھی۔ لیکن  تھوڑی دیر بعدجب اس نے اقبال کو جنگل میں لیبارٹری کے راستے پر جاتے دیکھا تو اس کا پیچھا کرنے کی کوشش کی لیکن اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اقبال اس کی نظروں سے دور ہو چکا تھا۔

...........................

اطلاع ملتے ہی  لیبارٹری کی سیکورٹی مزید سخت کر دی گئی  ۔ سینئر افسر نے موقع پر پہنچ کر تفتیش کا آغاز کیا۔سب سے پہلے کاشف سے پوچھا گیا کہ اقبال نامی آدمی کی تلاشی لی گئی تھی، اس پر کاشف نے بتایا کہ جامع تلاشی میں اس شخص کے پاس سے ایک ماچس کی ڈبیہ اور کچھ نقد رقم ملی تھی، کوئی ہتھیار یا کیمرہ وغیرہ نہیں نکلا تھا۔

اب سب سے بڑا مسئلہ اقبال کو ڈھونڈنےکا تھا وہ بھی رات کے اس پہر۔ کیونکہ سب سے قریبی آبادی قصبے کی تھی اس لیے وہاں سے تفتیش کا آغاز کیا گیا۔ اس آدمی کا سراغ لگانے کے لیےپورے قصبے کی رات کو کی جانے والی فون کالز کا ریکارڈ نکالا گیا۔ چونکہ رات بہت ہو چکی تھی اس لیے صرف پانچ فون ہی کیے گئے تھے۔ان میں سے ایک کال دشمن ملک کی بھی تھی۔ یہ ایک اچھنبے کی بات تھی اس لیے اس گھر کو فوری ڈھونڈا گیا جہاں سے دشمن ملک کال کی گئی تھی۔

بہت خاموشی کے ساتھ کاشف سمیت تین سپاہی اور انکا افسر اس گھر تک پہنچے۔ یہ مکان قصبے کے آخرمیں واقع تھا اورباہر سےخالی دکھائی دے رہا تھا۔ پھرتی اور خاموشی کے ساتھ اس گھر کا گھیرے میں لیا گیا۔ گھر کےاندر دو سپاہی گھسے۔ نیچے کی منزل بالکل ویران پڑی تھی،کسی ذی روح کا نام و نشان نہ تھا۔ جیسے ہی سپاہیوں نے اوپر کی منزل پر قدم رکھا، ایک شخص تیزی سے بھاگتا ہوا سامنے بنے کمرے میں گھس کر خود کو اندر سے بند کر لیا۔ یہی اقبال تھا ۔ مگر فوج کے سپاہیوں کے لیے کمرے کا دروازہ توڑنا کون سا مشکل کام تھا۔ جیسے ہی فوجی کمرے میں داخل ہوئے انہوں نے دیکھا اقبال مردہ پڑا تھا اور اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔  اس نے قید میں جانے کے بجائے زہر کا کیپسیول کھا کر اپنی جان دینے کو ترجیح دی۔

اقبال ایک دشمن ملک کا جاسوس تھا۔اس کا اصل نام جوہر سنگھ تھا۔  بعد میں لی گئی تلاشی پراس کے جوتوں میں چھپا کیمرہ نکلا، اس گھر سےکاغذات اور سی ڈیز نکلیں جن میں اس لیبارٹری کے افسران اور ان کے کام کے اوقات کےاور اس لیبارٹری کے مطلق مکمل معلومات موجود تھیں۔

گو کہ دشمن ملک کا جاسوس زندہ نہیں پکڑا گیا مگرسپاہیوں کی بروقت اور ذہانت سے بھرپور کاروائی سے ملک کا قیمتی اثاثہ،ہتھیاروں کی لیبارٹری تباہ ہونے سے بچ گئی تھی۔ 


{rsform 7}