’’آپ میں سے کس کی آواز زیادہ اچھی ہے؟‘‘ پی ٹی سر نے پوچھا۔ یہ نویں جماعت تھی۔ آج ان کے سائنس کے استاد نہیں آ ئے تھے۔ اس لیے وہ پی ٹی کرنے گراؤنڈ میں موجود تھے۔ ہلکی پھلکی پی ٹی کے بعد سر نے گفتگو شروع کر دی۔

’’سر! عامر کی! عامر کی!‘‘ کلاس میں سب لڑکے بول اٹھے۔ ’’ٹھیک ہے! عامر بیٹا! آپ اپنی اچھی آواز کا شکر کیسے ادا کرتے ہیں؟‘‘ ’’جی سر! شکر۔۔ آوا ز کاشکر ! وہ کیسے؟‘‘ عامر گڑبڑا گیا۔ یہ تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔ ابھی پی ٹی سر اپنی بات پوری سمجھاتے کہ بیل ہو گئی اور سب لڑکے قطار بنا کر کلاس میں آ گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عامر اگرچہ حافظ قرآن تھا لیکن اس کا رحجان قرآن کی جانب بالکل بھی نہیں تھا۔ اس کے والد امجد صاحب اسے سمجھا سمجھا کر تھک چکے تھے۔عامر کو اللہ پاک نے بہت خوبصورت آواز سے نوازا تھا۔ اس کے والد کی خواہش ہوتی تھی کہ موقع بموقع وہ تلاوت قرآن کیا کرے اور یوں ان کے دل کو ٹھنڈک پہنچایا کرے۔لیکن عامر ان کی یہ خواہش بہت کم ہی پوری کرتا تھا۔

 میٹرک کے بعد عامر نے جیسے ہی کالج میں ایڈمیشن لیا، وہاں بھی اس کی اچھی آواز کی دھوم مچ گئی۔ کلاس فیلو ز فرمائش کر کے اسے نت نئے مشہور گانے سنانے کو کہتے اور عامر کو تو بس یہی چاہیے تھا۔ ابھی کچھ مہینے پہلے عامر کے گھر کے پاس ہی ایک بڑے شاپنگ مال نے کنسرٹ کروایا۔ اس کے آخر میں گانوں کا مقابلہ بھی رکھا گیا تھا جو عامر نے جیت لیا۔ اسے ایک سنہری ٹرافی اور کیش انعام دیا گیا تھا جسے پا کر وہ بہت خوش تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’یار وہ والا سناؤ ناں وہ نئی فلم کا گانا ہے جو۔۔۔ ‘‘ علی نے گانے کے بول بتائے تو عامر پہلے تو مروتاً انکار کرتا رہا پھر جب سب ہی دوستوں نے فرمائش کی تو عامر نے گانا شروع کر دیا۔ اس وقت وہ بریک کے ٹائم اکھٹے ہوئے تھے۔ جب عامر نے گانا ختم کیا تو سب نے زوردار تالیاں بجا کر عامر کو خوب داد دی۔ عامر مسکراتا رہا اور اندر ہی اندر خوش ہوتا رہا ۔

’’لیکن عامر! تم تو حافظ قرآن ہو۔ حافظ  ہو کر گانے  کیوں گاتے ہو۔ تمھارے ابا کتنا سمجھاتے ہیں تمھیں کہ یہ کام چھوڑ دو۔‘‘

 یہ وسیم کی آواز تھی جو نہ جانے کب وہاں آکھڑا ہو ا تھا۔

 

وہ عامر کے بچپن کا ساتھی تھا اور اس کے پڑوس میں رہتا تھا۔کالج میں وہ دونوں ایک ہی کلاس میں تھے ۔بچپن سےدوست تھے لیکن جب سے عامر کا رحجان تلاوت کی بجائے موسیقی کی جانب ہو ا تھا تب سے دونوں کی آپس میں نہیں بنتی تھی۔ ہمیشہ ہی تلخی ہو جاتی جس کی وجہ سے عامر نے وسیم کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بند کر دیا تھا۔

’’ہونہہ! تم یہاں بھی پہنچ گئے اپنی نصیحتوں کا ٹوکرا لے کر۔ جاؤ جاؤ اپنا کام کرو۔میری مرضی  ! دراصل تم میری آوا ز سے جلتے ہو۔ ‘‘ عامر نے نہایت بدتمیز ی کے ساتھ کہا اور اس کے ساتھ ہی اس کے تمام دوست بھی وسیم کا مذاق اڑانے لگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک سال گزرتے پتہ بھی نہیں لگا۔ کچھ دنوں بعد نئی آنے والی فرسٹ ائیر کو ویلم پارٹی دی جانے وا لی تھی جس کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔ عامر کی پڑھائی کا اچھا خاصا حرج ہو رہا تھا کیونکہ اکثر اسے گانوں کی ریہرسل اور چناؤ کے لیے بلا لیا جاتا۔ عامر بھی اس پارٹی کے لیے بہت پر جوش تھا۔

اس دن سر اختر نے  کلاس میں آ کرکہا۔

’’آپ میں سے تلاوت کون کرنا چاہے گا؟‘‘

’’سر عامر سے کرا لیں۔ وہ حافظ قرآن بھی تو ہے۔‘‘ اچانک وسیم نے اٹھ کر کہا تو نہ جانے کیوں عامر کا دل دھڑکنے لگااور اس کی پیشانی پر پسینہ آ گیا۔

’’ارے! عامر بیٹا! آپ حافظ ہیں ۔ ماشاء اللہ! یہ تو اچھی بات ہے۔ بس پھر طے ہو گیا۔ تلاوت آپ کریں گے۔آپ لاسٹ پیریڈ میں میرے پاس آئیے گا ۔‘‘

یہ کہہ کر سر اختر چلے گئے تو بائیو کے سر دوبارہ سے پڑھانے لگے۔ لیکن اب عامر کا دھیان لیکچر سے ہٹ چکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ’’وہ۔۔ وہ  سر ! میں تلاوت نہیں کر سکتا۔‘‘ عامر نے کہا۔ وہ اس وقت سر اختر کے روم میں کھڑا تھا۔

’’کیوں برخودار! کیا بات ہے؟‘‘ سر اختر نے  عینک کے اوپر سے اسے دیکھا۔وہ کالج میں نئے آئے تھے اور سبھی ان کی سخت طبیعت کے باعث ان سے ڈرتے تھے۔  ان کے رعب دار لہجے نے عامر کو مزید کچھ نہ بولنے دیا۔ وہ خاموشی سے باہر نکل آیا۔

’’یار ! اتنا عرصہ ہو گیا ہے میں نے تلاوت نہیں کی۔ مجھے تو کافی سارا قرآن بھول چکا ہے۔ میں کیسے کروں تلاوت۔ مجھ سے نہیں ہو گا۔ وسیم کو تو میں چھوڑوں گا نہیں۔ لیکن سر اختر سے کیا کہوں۔ سمجھ نہیں آرہا۔‘‘ عامر نے چھٹی کے وقت اپنے گہرے دوست کاشف سے پوچھا۔ وہ پریشان نظر آرہا تھا۔

’’او ہو! تو کیا ہوا۔ بھئی سر اختر سے سیدھا سیدھا کہہ دو کہ تم تلاوت نہیں کرنا چاہتے۔‘‘ کاشف نے حل بتایا۔

’’نہیں! یہ بات تو ۔۔ نہیں ہے بس۔۔ میں۔۔‘‘ عامر کہتے کہتے  ہکلا گیا۔ اس کو خود سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دن عامر کو رات گئے تک نیند نہیں آئی۔ آخر وہ اٹھ بیٹھا۔پانی لینے کے لیے وہ فریج کی جانب جا رہا تھا کہ ایک آواز نے اس کے قدم روک لیے۔

’’یا اللہ! میرے بیٹے کو باعمل حافظ بنا دے۔ یااللہ! قرآن کا نور اس کے اندر تک اتار دے۔ یا اللہ! میں نے بہت محنتوں اور مشقتوں سے اسے حفظ کروایا تھا۔ مجھے کیا پتہ تھا وہ قرآن  کی راہ چھوڑ کر شیطان کی راہ پر چل پڑے گا۔ یااللہ! عامر میرا بچہ ناسمجھ ہے۔ اسے معاف کر دیں ۔ اس کو سیدھی راہ دکھادیں۔‘‘ یہ امجد صاحب تھے  جو تہجد کی نماز میں رو رو کر عامر کے لیے دعا مانگ رہے تھے۔

عامر وہیں کھڑا رہ گیا۔ابو جان اس کے لیے کیا چاہتے تھے۔ کیا دعائیں مانگتے رہتے تھے وہ۔ اور وہ کیا کرتا رہا تھا پچھلے کئی سالوں سے۔  اس کے قدم ندامت سے زمین میں گڑ سے گئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’الرحمٰن۔ علم القرآن۔‘‘ یہ ایک بہت ہی خوبصور ت آواز تھی جو مائیک میں گونجی تھی۔ سب نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔ عامر نہایت پر سوز آواز میں تلاوت کر رہا تھا۔ ایک ان دیکھی بے چینی جو اسے ہمہ وقت گھیرے رکھتی تھی آج اس کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ در اصل ایک بھٹکا ہوا مسافر آج سیدھے راستے پر چل پڑا تھا۔

پارٹی کے بعد عامر کو اس کے دوستوں نے گھیر لیا۔ وہ سب حیران تھے۔ آج عامر کا حلیہ بھی پچھلی پارٹیوں کی بنست یکسر بدلا ہو اتھا۔

’’کیا ہو گیا ہے عامر یار! اتنی پیاری آواز ہے تمھاری۔ ہم تو تمھارا گانا سننے آئے تھے۔ سنا تھا تم گانے بہت اچھے گاتے ہو۔‘‘ شاہد نے کہا۔

’’نہیں! بس اب نہیں گاتا۔ ‘‘ عامر نے مسکراتے ہوئے مختصر جواب دیا۔

’’لیکن کیوں؟ تم نے تو اتنے سارے آئٹم میں اپنا نام لکھوا رکھا تھا۔ کلچر کے ٹیچر بہت ناراض ہیں تم سے۔کافی سارے پروگرام ہٹانے پڑے تمھاری وجہ سے۔‘‘ایک اور دوست نے پوچھا۔

’’ہاں میں ان سے معذرت کر لوں گا۔ میں حافظ قرآن ہوں اور مجھے باعمل حافظ بننا ہے۔ مجھے اللہ کو ناراض نہیں کرنا۔‘‘

’’لیکن!‘‘ اس کے دوستوں نے کچھ کہنا چاہا۔

’’بس دوستو!تمھیں کیا بتاؤں آج  صبح جب میں نے ابا جان کو سورہ یاسین بلند آواز سے سنائی تو  اتنے دنوں بعد ان کے چہرے پر میں نے سچی خوشی اور اپنے لیے فخر دیکھا ۔ مجھے اپنے حفظ کے استاد صاحب کی بات یاد آگئی۔ وہ کہا کرتے تھےکہ تم میں سے جو یہ دیکھنا چاہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہے یا نہیں تو وہ اپنے والد کا چہرہ دیکھ لے۔ اگر اس کے والد صاحب اس سے راضی ہیں تو اللہ بھی اس سے راضی ہے۔ اور والد کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔بس آج سے میں نے دل ہی دل میں ارادہ کر لیا ہے کہ اباجان کو ہمیشہ اسی طرح اپنی ذات سے خوشی اور سکون پہنچاؤں گا اور اپنے رب کو راضی رکھوں گا۔ویسے بھی جس رب نے مجھے اتنی پیاری آواز دی ہے تو اس کا شکر اداکرنا میرا فرض بنتا ہے ۔ اور یہ شکر میں اب سے اس کی حمد بیان کر کے اور اس کا کلام سنا کر ادا کروں گا۔‘‘

’’انشاء اللہ!!‘‘ عامر نے مڑ کر دیکھا تو یہ وسیم تھا۔ عامر نےبھی مسکراتے ہوئے انشاء اللہ کہا اور دونوں گلے لگ گئے۔