آج تو دفتر میں کام کرکر کے کمر ہی ٹوٹ گئی تھی ہماری، بڑی مشکل سے جسم کے باقی حصوں کو اٹھائے ہوئے ہم کسی اچھی سواری کی تلاش میں تھے۔

ویسے تو ہم روزانہ بس میں ہی جایا کرتے تھے، مگر آج بس میں جانے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی، سوچا کوئی اچھی سی سواری ہونی چاہیے، مگر…مگر… کون سی؟
سوچتے سوچتے سر پورا کھجا ڈالا ، مگر کچھ سجھائی نہ دیا،اچانک ذہن میں ایک ترکیب آئی کہ کسی گاڑی والے کو روک کر اس سے کہنا چاہیے کہ ہم آج بہت ایمر جنسی میں ہیں، اس لیے حالات خراب ہونے کے باوجود آپ ہمیں لفٹ دے ہی دیں۔


چوں کہ حالات خراب ہونے کی وجہ سے لوگ اب لفٹ دیتے ہوئے گھبراتے تھے، اس لیے ہمیں جھوٹ بولنے کی حد تک سوچنا پڑا، مگر پھر اس خوف سے ہم نے اپنی اس سوچ کو اپنے دماغ سے دربدر کردیا کہ جھوٹ بولنے والوں پر تو اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے، لہٰذا ہم چاہے کتنا ہی تھک جائیں اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مستحق بننے والا کام کبھی نہیں کرسکتے۔
پھر ہمارے دماغ نے ہمیں ایک اور ترکیب بتائی کہ کسی اسکوٹر والے کو روک کر اس سے وقت پوچھنا چاہیے، وہ وقت بتائے گا تو ہم اس سے اس کی خیریت بھی پوچھ ڈالیں گے ، جواب دینے کے ساتھ ساتھ وہ بھی ہماری خیریت پوچھے گا، ہم اپنی خیریت بتانے کے بعد لگے ہاتھوں اس کا نام بھی پوچھ ڈالیں گے اور پھر جب وہ اپنا نام بتانے لگے گا تو ہم اسے روک دیں گے، وہ حیرت سے ہمیں دیکھے گاتو ہم بڑے ڈرامائی انداز میں اس سے کہیں گے کہ باقی باتیں اسکوٹر پر کریں گے، بے اختیار وہ ہمیں اپنی اسکوٹر پر بٹھا دے گا۔
’’
واہ بھئی…! واہ بھئی…!!‘‘ ہم نے بول کر خود ہی اپنی ٹوٹی ہوئی کمر کو تھپکی دی، جی ہاں ٹوٹی ہوئی کمر…بتایا تو سہی کہ آج کام کرکر کے ہماری کمر ٹوٹ چکی تھی۔
اتنے میں ایک اسکوٹر والا پاس سے گزرنے لگا تو ہم نے اسے روک دیا۔
’’
السلام علیکم۔‘‘ہم نے بڑی اپنائیت کے ساتھ اسے سلام کیا۔ اتنی اپنائیت سے تو کبھی ہم نے اپنے بچپن کے دوست کو بھی سلام نہیں کیا ہوگا۔
’’
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ… جی بھائی صاحب! خیریت تو ہے…طبیعت کیسی ہے…؟ کیا بات ہے اتنے گھبرائے ہوئے لگ رہے ہو… کسی ڈاکو نے تو نہیں لوٹ لیا… ایک تو ہمارے ملک کے حالات بھی اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ شریف آدمی کا رہنا ہی مشکل ہوگیا ہے… ویسے آپ کراچی کے ہی لگتے ہیں… کون سے علاقے میں رہتے ہیں…؟میرے خیال میں آپ کھارادر کے رہائشی ہیں… یہ کھارادر والے بھی نا… کاروبار میں بہت تیز ہوتے ہیں… یقینا آپ بھی بہت تیز ہوں گے… کیا کاروبار کرتے ہیں؟… کاروباریوں کے پاس گاڑیاں بڑی قیمتی قیمتی ہوتی ہیں… آپ کی گاڑی کہاں ہے؟‘‘
وہ ایک سانس میں اتنا کچھ کہہ گیا کہ ہم اپنا بنابنایا منصوبہ ہی بھول گئے اور ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگے…اُف خدایا! اتنا بھی کوئی باتونی ہوتا ہے…!! اس نے آج تک کے تمام باتونیوں کا ریکارڈ توڑدیا …اب ہم اس سے کیا کہیں؟… ہم نیچے منہ کیے اپنا سر کھجانے لگے… بڑی مشکل سے ہمیں اپنے منصوبے کا ایک جملہ یاد آگیا۔
’’
آپ کا نام کیا ہے جناب…؟‘‘
’’
ویسے تو لوگ ہمیں…‘‘ وہ اپنے نام کی نہ جانے کیا کیا تفصیل کرنے لگتا، اس سے پہلے ہی ہم نے اسے روک دیا، جو کہ عین ہمارے منصوبے کا حصہ تھا۔
وہ حیرت سے ہمیں دیکھنے لگا تو ہم نے بڑے ڈرامائی انداز میں اس سے کہا:
’’
باقی باتیں اسکوٹر پر۔‘‘ یہ کہہ کر ہم جوں ہی اس کی اسکوٹر پر بیٹھنے لگے تو اس وقت ہمارا ماتھا ٹھنکا… اسکوٹر کے دائیں اور بائیں پچھلے حصے پر دودھ کی دو دو بالٹیاں لٹک رہی تھیں اور ایک عدد سامان سے بھری تھیلی پچھلے حصے میں اوپر رکھی ہوئی تھی۔
’’
بھائی صاحب آپ کو کسی چیز کی تلاش…‘‘ اس کی زبان پھر رواں دواں ہوجاتی اگر ہم بروقت حاضر دماغی سے کام لے کر سلامِ رخصتی کرکے ایک طرف کو نہ چل دیتے۔
’’
اب کیا کریں…؟‘‘ ہمارے دل نے دماغ سے پوچھا۔
’’
جیب کی رقم گن کر کسی رکشے کو تلاش کیا جائے۔‘‘ دماغ واقعی کافی ذہین تھا، فوراً جواب دے دیا…اور کیوں نہ دے فوراً عمدہ جواب… آخردماغ بھی تو وہ کس کا تھا۔
ہم نے جیب سے رقم نکال کر گنی تو پورے سو روپے تھے، جب کہ اس جگہ سے ہمارے گھر تک رکشے والے کم سے کم ایک سو بیس روپے لیتے تھے۔
خیر… ہم دل کڑا کرکے قریبی چورنگی کی جانب بڑھ گئے، وہاں کافی رکشے کھڑے ہوئے دور سے ہی نظر آرہے تھے۔
پھر جوں ہی ہمیں وہ رکشے کچھ صاف نظر آنے لگے تو ہمارے دماغ کی طرف سے دل کو ایک عدد پیغام موصول ہوا:
’’
رکشہ ہو تو سی این جی …ورنہ ہو ہی نہیں۔‘‘اس بات پر ہم حیران رہ گئے۔
’’
کیوں بھئی؟‘‘ دل نے بددلی سے سوال کیا۔
’’
اس لیے کہ پرانے رکشے اچھالتے بھی بہت ہیں اور ان کی آواز سے سر میں اور زیادہ درد ہونے لگتا ہے۔‘‘
بات بہت معقول تھی، ہم نے اپنی فہیمانہ نظروں کو چاروں دوڑانا شروع کردیا، کن انکھیوں سے ہم اپنے ہاتھ دبوچے ہوئے سو روپے بھی دیکھتے جاتے تھے، کہیں اڑ ہی نہ جائیں۔
’’
السلام علیکم۔‘‘ ہم نے سب سے خوب صورت سی این جی رکشے کے ڈرائیور کو ٹھیٹھ مال داروں کے سے انداز میں سلام کیا، آخر کو بس کی بجائے رکشے میں جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔
’’
وعلیکم السلام… جی جناب؟‘‘ ڈرائیور نے سیدھاہوکر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’
کھارادر…‘‘ ہم نے ایک لفظ پر اکتفا کرنے کو مناسب سمجھا۔
’’
بیٹھیں جی۔‘‘ اسے کے دونوں ہاتھ اسٹیرنگ سنبھال چکے تھے۔
ہم نے سوچا اب ہم کیا کریں ، کیوں کہ ہم نے سنا تھا کہ مال دار لوگ تو ریٹ پوچھنا مناسب نہیں سمجھتے، لیکن پھر ہمارے دماغ نے ہمیں ایک معقول بات سمجھائی کہ ہم اگر مال دار ہوتے تو سلام کرتے ہی بیٹھ جاتے ، کیوں کہ مال دار لوگ بیٹھ جانے کے بعد رکشہ اسٹارٹ ہوتے ہی اپنے علاقے کا نام بتاتے ہیں۔
’’
کتنے…؟‘‘ ہم نے بالآخر پوچھ ہی لیا۔
’’
دو سو بیس روپے۔‘‘ اس نے منہ نیچے کیے جواب دیا۔
ہم کچھ سنے بغیر ہی آگے چل دیے، اس سے تو بہتر تھا ہم پیدل ہی گھر چلے جاتے۔
دوسرے رکشے والے نے دو سو روپے بتائے، تیسرے ، چوتھے اور پانچویں نے بھی ۔ چھٹے رکشے والے نے ہمارے منت سماجت والے انداز کو دیکھ کر ایک سو اسی روپے بتائے۔
ہم بجھے بجھے بس اسٹاپ کی جانب چل پڑے۔
بس اسٹاپ پر بس سے پہلے ایک رکشہ گزرا، ہمارا ہاتھ بے اختیار اسے روکنے کے لیے اٹھ گیا۔
یہ بھی سی این جی رکشہ تھا، ہم نے اس سے بھی رسمی باتیں کرکے ویسے ہی بجھے بجھے انداز میں رقم پوچھی… ہمارے ذہن میں تھا کہ یہ بھی بہت سے بہت ایک سو ستر بولے گا، مگر خلافِ توقع اس نے ہمیں مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہا:
’’
بائو جی! جو آپ دے دیں گے ہم لے لیں گے۔‘‘
’’
میں سو روپے دوں گا۔‘‘ ہم نے فوراً کہا، کہیں وہ اپنی بات سے مکر نہ جائے۔
’’
بیٹھو جی۔‘‘
ہم اچھل کر اس کے رکشے میں اس تیزی سے بیٹھے کہ وہ بھی ہنس پڑا، ہم سے باتوں کے دوران میں اس نے اس کا رکشہ بند ہوچکا تھا۔
’’
کہاں جارہے ہو؟‘‘ہم نے اسے رکشے سے اترتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔
’’
ایک منٹ… بائو جی! … رکشہ اسٹارٹ کر رہاہوں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے نیچے جھک کر کچھ پکڑا اور زور سے ہاتھ اوپر کھینچا تو ہم پورے ہل گئے۔
’’
بھڑ…ڑڑ…بھڑڑڑرررر…‘‘
’’
دھت تیرے کی…!!‘‘ہمارے منہ سے بڑے دردناک انداز میں نکلا۔
ہم نے عالمِ حیرانگی میں منہ اٹھا کر رکشے کو چاروں طرف سے دیکھا، باڈی سی این جی رکشے کی تھی اور رکشہ وہی پرانا والا تھا۔
’’
چالیس ہزار کا خرچہ آیا ہے بائو جی…!‘‘ اس نے بڑے فخر سے بتایا۔ غالباً وہ سمجھا کہ ہم متاثر ہوکر اس کا رکشہ چاروں طرف سے دیکھ رہے ہیں۔
’’
دھت تیرے کی…!!‘‘