گرمی کے موسم کے آغاز کے ساتھ ہی  لان کے ملبوسات عام دکھائی دینے لگتے ہیں۔  رنگ آرائی کا لبادہ اوڑھے، نت نئے  ڈیزائن سے مزین  لان کے سوٹ ہر چھوٹی بڑی دکان کی زینت بنے نظر آتے ہیں۔

 ایسے میں ہر ایک خاتون کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ اسکا لان کا سوٹ سب سے خوبصورت اور منفرد دکھے۔

مختصرا یہ کہ بازار میں گھماگھمی کافی بڑھ جاتی ہے۔

مہرین کاحال بھی کچھ  مختلف نہ تھا۔وہ بھی لان کے سوٹ خریدنے کی متمنی تھی سو بچت کے روپوں میں لان کے سوٹ کا بھی حصہ ڈال دیا۔جیسے ہی روپے پورے ہوئے۔اس نے بھی بازار کی جانب دوڑ لگادی۔

صفیہ بیگم بہوکو بھری دوپہر میں تیار ہوتے دیکھ کرفورا استفسار کر بیٹھیں۔

"اے بہو !!اتنی گرمی میں کہاں چل دیں؟

مہرین اپنی تیاری میں مگن  ساس کی بات پہ ذرا دیر کو رکی۔ان کی طرف دیکھا۔اور مسکراکر بتانے لگی۔

 

"وہ  امی!  لان کا سوٹ خریدنے ذرا دیر کیلئے  بازار جارہی ہوں۔گرمی اب ذرا کم ہوگئی ہے ۔شام کے 5 جوبج رہے ہیں۔بچے  ٹیوشن  سینٹر چلے گئے ہیں۔ دیر سے ہی واپسی ہوگی ان کی۔کھانا سب بنادیا ہے۔تب تک میں خریداری کرکے جلدی واپس آجاؤنگی ۔‘‘ مہرین نے ایک ہی سانس میں سب کہ ڈالا۔

صفیہ بیگم نے مہرین کی بات سن کر خوش دلی کا مظاہر کیالیکن ساتھ نصیحت بھی کرتی گئیں۔ 

"بیٹا خیر سے جانا اور خیر سے آنا۔۔زیادہ دیر نہ لگانا۔چادر ٹھیک طرح کرنا۔باہر کی نظریں بڑی خراب ہیں۔"

صفیہ بیگم محبت سے اسکو دیکھنے لگیں۔

مہرین نے اپنی ساس کی نظروں کا ارتکاز خود پہ  محسوس کرتے ہوئے۔جھٹ سے جواب دیا۔

"جی اماں بے فکر رہیئے۔"

مہرین اپنی ساس کی عادت سے اچھی طرح  واقف تھی۔ جو بھی گھر سے باہر جاتا انہیں فکر لگ جاتی جب تک وہ صحیح سالم  گھر واپس نہ آجاتا وہ سکون کا سانس نہیں لے پاتی تھیں۔

مہرین اپنی مخصوص دکان پہ جاپہنچی۔لان کے سوٹ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر ہی تھیں وہ بڑی مشکل سے ایک سوٹ پسند کرپائی۔باقی کےسوٹ اگلے مہینے کی بچت پہ ڈال دیے۔ 

"بھائ صاحب وہ والا لان کا سوٹ دکھانا۔ جس کا نیوی بلوکلر ہے اور پیلے رنگ کے پھول بنے ہیں ۔جی جی یہی والا۔کتنے کاسوٹ ہے یہ؟"

مہرین  اپنا من پسند سوٹ ہاتھ میں لئے  اسکا باریک بینی سے معائنے میں محو تھی۔

"باجی صرف 2000 روپے۔"

دکاندار نے قیمت بتائی۔

"ارے بھائی یہ تو زیادہ بتارہے ہو۔میں بس 1000 روپے دونگی اس سے زیادہ نہیں"!!

مہرین اپنے حساب سے سوٹ کے پیسے بتاچکی تھی۔

"باجی بس 1500 روپے سے کم نہیں ہوں گے ۔اب آپ کی مرضی ہے۔  اگر لینا چاہتی ہیں تو ٹھیک۔ورنہ آپ کوئی دوسرا سستا سوٹ دیکھ لیجئے۔ "

دکاندار نے بھی حتمی فیصلہ سنادیا تھا۔

مہرین کاتو دل اس سوٹ پہ اٹک ہی گیا تھا ۔اس نے دکاندار کی بات مانتے ہوئے پیسے دےدیے۔دکاندار نے جو بقایا پیسے دیئے۔اسے دیکھ کر مہرین چونک گئی ۔وہ سوٹ کا شاپر تھامے دکان سے باہر نکل آئی تھی ۔

راستے بھر وہ سوچتی رہی۔ اسکو 500روپے ملنے تھے بقایا پھر دکاندار نے 1000 روپے کیوں تھمادیے۔کیا میں اسے واپس کروں یا نہیں۔ اس ایک ہزار سے تو میں ایک اور سوٹ بھی لے سکتی ہوں۔لیکن نہیں! یہ غلط ہو گا۔

گھر آکے بھی  وہ کشمکش میں رہی اور اسے چین نہ مل سکا۔

صفیہ بیگم نے جوں ہی مہرین کا چہرہ دیکھا انہیں حیرت نے آگھیرا۔جب بھی مہرین بازار جاتی اس کا چہرہ خوشی سے دمکتا رہتا۔وہ بڑے تپاک سے اپنی لائی ہر چیز دکھاتی۔ایسا پہلی بار ہوا کہ وہ اتنی خاموشی سے آکر بیٹھ گئی۔

وہ پوچھے بنا نہ رہ سکیں۔

"کیا بات ہے مہرین سوٹ نہیں خریدا کیا؟"

مہرین ساس کی بات پہ بوکھلاگئی۔فورا اپنے چہرے کے زوایے درست کئے۔لہجے میں مصنوعی جوش بھرا۔ 

"جی امی خرید لیا ابھی دکھاتی ہوں ۔ آپ کو  بھی بہت پسند آئیگا ۔اچھا سوٹ مل گیا۔"

صفیہ بیگم مہرین کے جواب سے ابھی بھی پوری طرح پرسکون نہ ہوسکی تھیں۔

"پھر اتنی پریشان کیوں دکھائی دے رہی ہو؟"

"وہ اصل میں امی مجھے  سمجھ نہیں آرہا کس اسٹائل سے یہ سوٹ سیوں۔"

صفیہ بیگم سر پکڑ کر رہ گئیں۔

"لوں بھلا یہ بھی کوئی پریشانی والی بات ہے میں تو یوں ہی ہول گئی تھی کہ اللہ جانے کیا ہوگیا ایسا ۔جو تمھارا  چہرہ اترا ہوا ہے۔"

ساری رات وہ سو نہ سکی۔سوچتی رہی۔ نہ جانے کیوں اسے کوئی خوشی نہیں ہورہی تھی ۔ضمیر کی چبھن نے اس سے بے کل کردیا تھا۔

شیطان مسلسل اسکو ورغلانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔مگر ضمیر ملامت کر رہاتھا ۔ ایمانداری کی طرف مائل کرتا رہا۔

آخر فیصلہ ہوچکا تھا۔وہ دوسرے دن  دکاندار کے سر پہ جا پہنچی۔

"بھائی صاحب ! میں کل آئی تھی اور آپ کو میں نے 2000 روپے دیئے تھے ۔ میرے سوٹ کی قیمت 1500 روپے۔اس حساب سے آپ کو مجھے 500 روپے بقایا دینے چاہیئے تھے مگر آپ نے 1000 ہی روپے واپس دیئے۔ آپ سے غلطی ہو گئی ۔یہ لیجئے پیسے مجھے۔ میرے اصل  روپے واپس کردیجئے"!!

دکاندار ششدر رہ گیا ۔پہلی بار ایسی عورت کو دیکھ کر  جو غلطی سے زیادہ پیسے آجانے کے باعث واپس لوٹانے آئی تھی۔رقم بھی کچھ کم نہ تھی۔  

"  بہن آپ کا بے حد شکریہ۔ یہ دیکھ کر واقعی خوشی ہوئی  کہ اب بھی ایماندار لوگ زندہ ہیں۔"

مہرین طمانیت سے بولی۔

"بھائی یہ پیسے میں کتنے دن خرچ کر لیتی۔مگر میری عاقبت خراب ہوجاتی۔جو سراسر گھاٹے کا سودا رہتا۔میرا اللہ بھی مجھ سے ناخوش ہوتا!‘‘

وہ مطمئن سی گھر لوٹی۔ اس بار اسکے چہرے پہ عجیب رمق تھی جو صفیہ بیگم نے بھی محسوس کی۔انکے اصرار پہ مہرین نے سارا قصہ سنا ڈالا۔

وہ خوش تھیں کہ ان کی بہو نیک طبیعت اور ایماندار ہے۔اس پر فتن دور میں بھی اللہ کے ایسے بندے اب بھی موجود ہیں جن کا ایمان باقی ہے اور جو شیطان کے بہکاوے میں نہیں آتے۔