’ابتدا کہاں سے کروں، کیا اور کیسے لکھوں؟‘‘ وہ خود کلامی کے انداز میں مسلسل سوالات کیے جارہا تھا۔ سوچتے سوچتےاس نے قلم کی نوک کاغذ کے سینے پر رکھی تو جملے یکے بعد دیگرے وجود میں آتے چلے گئے۔ مضبوط پلاٹ اور بہترین کردار وں کے ساتھ اس نے ایک عمدہ، مؤثر اور سبق آموز کہانی لکھ ہی ڈالی تھی۔ آخری جملہ مکمل کرنے کے بعد ایک معنی خیز مسکراہٹ اس کے لبوں پر رقص کرنے لگی اور اس نے مسودہ احتیاط سے بستے میں رکھ دیا۔
نبیل صبح اسکول کے لیے روانہ ہوا تو اس کے احساسات ہی بدلے بدلے تھے، اس کی اداؤں سے تفاخر اور
بڑائی جھلک رہی تھی۔ پوری جماعت کو یقین تھا کہ حسب سابق اس مرتبہ بھی میدان نبیل ہی مارے گا۔
سرندیم کلاس میں داخل ہوتے ہو گویا ہوئے:’’ ہاں بھئی! کس کس نے کہانی لکھ لی ہے؟‘‘
چند بچوں نے اپنے اپنے بستوں سے کہانیاں نکال کر سر کی ٹیبلز رکھ دیں۔ سر نعیم نے اچٹتی نگاہ سب تحریروں پر ڈال کر اطمینان سے سر ہلایا اور کہا:’’ کامیاب تحریر کا اعلان ایک ہفتے بعد کیا جائے گا۔‘‘
نبیل بے چینی کے ساتھ آئندہ ہفتے کا انتظار کرنے لگا۔ اسے پورا اعتماد تھا کہ کامیاب تحریر اسی کی ہوگی اور اول انعام کی حق دار ٹھہرے گی۔
بالآخر مقررہ دن آگیا۔ سر نعیم ایک فائل ہاتھ میں تھامے درس گاہ میں داخل ہوئے۔ پروقار انداز میں اپنی نشست پر بیٹھنے کے بعد تمام بچوں کے چہرے پر گہری نظر ڈالی۔ سب ان کی جانب ہمہ تن متوجہ تھے۔
یکایک فضا میں ان کی بارعب آواز گونجی:’’ اول نمبر پر آنے والی تحریر حنظلہ طارق کی ہے۔‘‘
نبیل کا چہرہ بجھ گیا اور احساس تفاخر سے تنی گردن جھک گئی۔ اسے سمجھ نہ آرہا تھا کہ یہ کیا ہوگیا۔ حنظلہ نے پہلے کبھی اسکول کے تحریری مقابلوں میں حصہ نہ لیا ، جبکہ وہ ہمیشہ پہلی پوزیشن حاصل کرتا رہا تھا۔ وہ برابر حیرت اور پریشانی کے سمندر میں ڈبکیاں کھارہا تھا کہ اچانک سر کی پکار اسے حقیقت کی دنیا میں واپس لے آئی۔
’’ نبیل! آپ میرے ساتھ ٹیچر روم چلیے!‘‘
نبیل سیٹ سے اٹھا اور بوجھل قدم اٹھاتا سر کے پیچھے پیچھے ٹیچر روم پہنچ گیا۔ سر نے نبیل کو پرشفقت لہجے میں بیٹھنے کو کہا۔ چند لمحے سکوت کے بعد وہ بولے:
’’ مجھے احساس ہے کہ تم نہایت افسردہ ہو اور تمہیں حیرت کا جھٹکا لگا ہے۔ میں نے اسی لیے تمہیں اپنے پاس بلایا تاکہ تمہای پریشانی کا حل بتاؤں۔ دیکھو میرے عزیز!ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد مبارک کا مفہوم ہے :’’ اللہ پاک کا حق ہے کہ وہ ہر بلند کو پست کردے۔‘‘ (سنن ابی داؤد(
میں کافی دنوں سے محسوس کررہا تھا کہ تمہارے اندر اپنے قلم کی جولانیاں دیکھ دیکھ کر تکبر اور غرور پیدا ہورہا ہے۔ تمہیں یہ خوش فہمی ہوگئی تھی کہ کلاس میں کوئی اور بچہ تم سے بہتر تحریر نہیں لکھ سکتا۔ اللہ پاک کو یہ ادا سخت ناپسند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نتیجہ تمہاری توقع اور امیدکے خلاف سامنے آیا ہے۔
عزیزمن! اگر کامیاب قلم کار بننے کے خواہش مندہو تو تمہیں اپنے غلط خیال کی اصلاح کرنا ہوگی اور اپنی قلمی کاوش کو کم تر سمجھنا ہوگا، تب ترقی اور کمال کے زینے پر تم پہلا قدم رکھ پاؤ گے۔ ‘‘
یہ پر اثر نصیحت سن کر نبیل کا بجھا چہرہ چمک اٹھا اور اسے سبق مل گیا کہ مجھ سے کہاں غلطی ہوئی۔
’’ سر! ان شاء اللہ !آئندہ ایسا ہی کروں گا جیسے آپ نے کہا ہے۔‘‘
سر نعیم دھیرے سے مسکرادیے ۔
{rsform 7}