Men Zindagii

   اس Category   میں نوجوانوں کے لیے لکھی گئی دلچسپ کہانیاں شامل ہیں۔ زندگی کے مشکل اور الجھن بھرے لمحات سے کیسے نمٹناہے اور اپنے رب کو کیسے راضی  کیسے کرنا ہے، یہ جاننے  کے لیے یہ کہانیاں ضرور پڑھیں۔


دل کا موسم

لطیف صاحب صبح کے گئے رات نو بجے گھر میں داخل ہوئے۔ وہ نہایت تھک چکے تھے۔ جب تک وہ گاڑی سے اترے تینوں بچے جالی والے دروازے پر آچکے تھے۔ اندر آکر انہوں نے بچوں سے ہاتھ ملایا، ان کو پیار کیا اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی چاکلیٹیں ان کو پکڑا دیں۔

اب ان کی نظریں سیما کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ اسی اثناء میں وہ بھی کچن سے نکل آئی۔ اس نے  دونوں آستینیں کہنیوں تک چڑھائی

نیکیاں زندہ ہیں

          Print

میرا نام دعا ہے اور میں اپنے گھر میں سب سے بڑی ہوں۔ میرے لئےابو کی ذات باعث فخر اور آئیڈل رہی ہے۔ آج جب ایک بوڑھے مزدور نے ہمارے گھر کی بیرونی دیوار پر لگے ہوئے کولر سے پانی پیا اور ڈھیروں دعائیں دیتا ہوا رخصت ہوا تو مجھے اپنے ابو بہت یاد آئے۔ آج سے کچھ سال پہلے اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا تھا۔ 

ابو ماشاءاللہ ایک اچھے تاجر ہونے  کے ساتھ ساتھ اچھے انسان بھی تھے۔ ہر ایک کے دکھ درد میں کام آنے والے تھے۔کچھ عرصے سے ابو گھر کو تعمیر کروانے کا سوچ رہے تھے اور اس سلسلے میں کمیٹی بھی ڈال رکھی تھی۔
ابو ہمیشہ دوسروں کے ساتھ نیکی کرنے اور ان کےہر طرح سے کام آنے پرزور دیتے۔شعبان میں

کب تک؟

          Print

’’امی جی! حریم کو بھی بلا لیں ناں!‘‘ رانیہ نے بے قراری سے کہا۔  وہ آج ہی امی کے گھر پہنچی تھی۔ شام کو افطاری تھی۔اس کا بہت دل کر رہا تھا حریم سے ملنے کو۔ پچھلی بڑی عید پر   ملی تھی۔ اب  پورا سال ہونے کو تھا۔ 

’’ہاں ! میں نے اسے فون کیا تھا۔ آرہی ہے۔ ۵ بجے تک۔ پہلے سسرال   جائے گی۔ ‘‘ امی نے بتایا۔

’’ٹھیک ہے! ‘‘ اس کا  دل خوشی سے سر شار ہو گیا۔

 اس دن رانیہ کو بالکل روزہ نہیں لگا۔  چھوٹی بہن سلمیٰ کے

بالکل فکر نہ کرنا

          Print

میرا تعلق شہر کراچی کے ایک متوسط خاندان سے ہے۔ بہت سالوں قبل جب میں تعلیم کیلئے لندن آیا تو میرے سر پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی طرح اپنی ماسٹرز کی فیس جمع کرنی ہے اور ساتھ ہی ڈگری وقت پر مکمل کرنی ہے۔ آج کے حساب سے مجھے کم و بیش تیرہ لاکھ روپے درکار تھے۔ اس ہدف کا حصول قریب قریب ناممکن تھا۔

جن لوگوں کے ساتھ رہائش تھی وہ سب مذاق اڑاتے اور

! کوئی نہیں روک سکتا

          Print

ابھی عید کی چھٹیاں چل رہی تھیں۔ بچے رات گئے تک جاگتے رہتے۔ ’’چلو ! لائٹ بند کرو۔ اب سو جاؤ۔ کل بھی آپ لوگوں کی فجر کی نماز قضا ہو گئی تھی۔ ‘‘ نزہت بچوں کے کمرے میں آئی۔ گھڑی بارہ بجا رہی تھی۔اس نے دونوں بچوں کو بستر پر لیٹنے کا کہا۔ دعا کی تلقین کی ۔ لائٹ آف کی اور باہر آگئی۔

ابھی اسے  میاں کے لیے چائے بنانی تھی۔چھٹیوں میں متین صاحب رات گئے تک جاگنے کے عادی تھے۔ عشاء کے بعد گویا ان میں ایک نئی توانائی دوڑ جاتی۔  کبھی چائے نمکو کا دو ر چلتا۔ کبھی رات کے کھانے کے

! کیا سے کیا

          Print

ارشد صاحب شادی کے شروع کے دنوں میں تو کچھ لحاظ میں رہے ۔ یعنی گھر آکر پسینے سے بھرے ہوئے کپڑے بدلنا اور صاف ستھرا لباس پہن کر بیوی کے سامنے آنا۔ لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گئے وہ اپنی پرانی ڈگر پر واپس آگئے۔

ان کی کتابوں کی دکان تھی۔ ہول سیل کا کام کرتے تھے۔ دو ملازم بھی رکھے ہوئے تھےلیکن خود بھی کافی بھاگ دوڑ کرنا پڑتی۔ دکان میں ابھی اے سی نہیں لگا تھا۔ آجکل سکولوں میںداخلے کا سیزن تھا۔سارا دن گاہکوں کا رش لگا رہتا۔

رات کے نو بجے جب

کچھ حاصل نہیں ہوتا

          Print

’’ٹوں ٹوں ٹوں!‘‘ سحری کا الارم ہوا تو ناصر اٹھ گیا۔ جلدی سے وضو کیا۔ ہر طرف خاموشی تھی ۔ ٹھنڈی سی ہوا چل رہی تھی۔ ناصر نے کھڑکی کے ساتھ جائے نماز بچھائی۔ پھر اس نے ایک نظر آسمان پر ڈالی۔ تارے چمک رہے تھے۔ ہر سو خاموشی کا عالم تھا۔ ناصر کو ایسے ماحول میں تہجد پڑھنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ اس نے بہت سکون اور خشوع کے ساتھ تہجد ادا کی۔ 
اس کی فیملی گاؤں میں ہوتی تھی۔