Men Zindagii

   اس Category   میں نوجوانوں کے لیے لکھی گئی دلچسپ کہانیاں شامل ہیں۔ زندگی کے مشکل اور الجھن بھرے لمحات سے کیسے نمٹناہے اور اپنے رب کو کیسے راضی  کیسے کرنا ہے، یہ جاننے  کے لیے یہ کہانیاں ضرور پڑھیں۔


Aik Darjan Key Terah

  یہ یورپ کا ایک دور دراز شہر تھا  جس کے چھوٹے سے صاف ستھرے محلے میں بہت سے لوگوں کے ساتھ ماریہ بھی رہتی تھی۔ ماریہ ایک محنتی عورت تھی۔ گھر کی واحد کفیل ہونے کے ناتے اس نے اپنے  علاقے  میں ایک چھوٹی سی بیکری کھول رکھی تھی جس سےاسکی اور  اس  کے  بچوں کی  اچھی گزر بسر ہو رہی تھی ۔ کم سرمایہ ہونے کی وجہ سے وہ خود ہی چیزیں بناتی اور خود ہی دکان میں ان کو فروخت کرتی۔ایک اچھی  کھانے پکانے والی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بہت ایماندار بھی تھی۔ ماریہ کی یہی خاصیت اس کو دوسروں سے جدا کرتی تھی اور اپنی ایمان داری کے لیے مشہور تھی۔  اپنے بیکری  کے کھانوں  میں ہر چیز خالص اور معیاری استعمال کرتی جس سے اس تمام چیزوں کی لذت دوبالا ہو جاتی۔  ساتھ ہی ساتھ اپنی بنائی ہوئی چیزوں پر ایک روپیہ زیادہ لینا یا کم لینا اس کے اصول کے خلاف  تھا اور اس پر ماریہ سختی سے عمل کرتی تھی۔اس کی بنائی ہوئی  تمام ہی بیکری کی چیزیں پورے علاقے  میں مشہور تھیں، خاص کر کے اسکی بنائے ہوئے رنگ برنگ کپ کیک بہت مشہور تھے۔ جس کو خریدنے دوسرے علاقے سے بھی بچے بڑے  سبھی آیا کرتے تھے۔

مسکراہٹ کا رشتہ

یہ آج سے کئی سال پہلے اتوار کے دن کی بات ہے۔ میں قریبی  پارک میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ اچانک میری نظر ایک فیملی پر پڑی۔

’’بیٹا! وضو کہاں کرنا ہے؟‘‘ ایک بوڑھے سے ،ضعیف بابا  اپنے نوجوان بیٹے سے پوچھ رہے تھے۔  وہ لوگ بیت الخلاء کے سامنے والی سیڑھیوں پر کھڑے تھے۔ نوجوان کی بیوی کا منہ بنا ہوا تھا۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ اپنے سسر کو ساتھ لانے پر قطعاً راضی نہیں تھی۔

لیکن اس وقت میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب بیٹے نے اپنے والد کے بار بار بلانے کے باجود مڑ کر اس کو دیکھا تک نہیں۔ یہ دیکھ کر میں چند قدم آگے بڑھا۔

ضعیف والد کے چہرے پر اب شرمندگی کے آثار تھے۔ شام کا ٹھنڈا موسم تھا لیکن ان کے چہرے

کیا واقعی؟

ماہم! کل جو لوگ آئے تھے ناں تمھیں دیکھنے۔ انہیں تم بہت پسند آئی ہو۔ بتول سے بڑی تعریفیں کر رہے تھے تمھاری۔ ‘‘ اماں کے لہجے میں فخر تھا۔

’’اماں! وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ کو پتہ ہے ان کے بیٹے کی ڈاڑھی ہے۔ اور مجھے کسی ڈاڑھی والے بندے سے شادی نہیں کرنی۔ ‘‘ ماہم نے ناک سکوڑتے ہوئے کہا ۔

’’ہاں!  ہم اپنی بیٹی کی شادی اس کی پسند سے ہی کریں گے۔ جبر تھوڑی ہے کوئی۔ نہیں پسند تو کوئی بات نہیں۔‘‘ اماں نے ماہم کو لاڈ کرتے ہوئے کہا تو ماہم  کی صراحی جیسی گردن اور اونچی ہو گئی۔ اس کے تصور میں کل کے دیکھے گئے ڈرامے کا ہیرو آگیا۔ کیا ڈیشنگ پرسینالٹی تھی  اس کی۔

بے چینی کا حل

کئی دنوں سے نسیمہ ازحد بے چین تھی۔ بے چینی کی کوئی وجہ بھی سمجھ نہیں آتی تھی۔ آج  وہ بڑی بہن سلیمہ آپا کے ہاں چلی آئی۔  اسے کمرے میں بٹھا کر سلیمہ آپا چائے بنانے چلی گئیں۔ نسیمہ نے سائیڈ پر پڑا ہوا ایک دینی رسالہ اٹھا لیا۔  رسالہ کھولنے کے چند منٹ بعد ہی نسیمہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اسے اپنی بے چینی کی وجہ یکدم سمجھ میں آگئی۔

چھوٹا کمرہ

"مصعب بیٹا کیا ڈرائنگ بنا رہے ہو ؟‘‘ زبیر صاحب نے اپنے بیٹے کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ ’’جی ابو جی میں ایک پیارا سا گھر بنا رہا ہوں۔‘‘ مصعب نے ڈرائنگ بک پر جھکے ہوئے جواب دیا۔

’’شاباش بیٹا ! تمہاری ڈرائنگ تو بہت اچھی ہے! اچھا یہ بتاؤ یہ بڑا کمرہ کس کے لئے ہے ؟ ‘‘ زبیر صاحب نے مسکرا کر پوچھا۔ 
’’ابو جی یہ میرا کمرہ ہے ۔‘‘ مصعب نے بتایا۔ 
’’بہت خوب!‘‘ زبیر صاحب نے داد دی۔ 
پھر مصعب نے ایک چھوٹا سا کمرہ گھر کے ایک کونے میں بناتے ہوے کہا۔’’ابو جی آپ کو پتہ ہے یہ کس کے لئے ہے؟‘‘ 
’’ جی بیٹا ! یقینا یہ گھر کا ایک اسٹور ہو گا ۔‘‘
’’نہیں ابو جی یہ کمرہ آپ کے لیے ہے ۔‘‘ زبیر صاحب چونک گئے

بستی ادھر ہے!

حضرت ابراہیم بن ادھم  رحمہ  الله تعالیٰ کسی جنگل  کی طرف  نکلے  آپ کو ایک  مسافر ملا۔   اس  نے  پوچھا  ۔ " بستی  کس طرف ہے  ؟" آپ  نے  قبرستان  کی طرف  اشارہ  کیا اور کہا۔ "بستی اُدھر ہے !"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                       

" مٹی  کے  نیچے کیا ہوتا  ہے مما  ؟"    

" مٹی  کے نیچے ؟"     میں  یکدم چونکی۔   عالیہ   سے  اس قسم  کے سوال کی  توقع نہ تھی  ۔ میں نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا  وہ غور سے لان میں لگے  پودوں  اور کیاری  میں موجود  مٹی 

بے لوث دعائیں

تالیوں کی گونج میں احمر نے اپنا ایوارڈ لیا۔ ساتھ ہی ساتھ کیمروں کی روشنی سے اسکی آنکھیں چندھیانے لگیں مگر اسکی آنکھیں ان سارے پر مسرت لمحوں سے دور گاؤں کی پگنڈنڈی کے ساتھ  بھاگتے بچے کو دیکھ رہی تھیں، جو خوف کی حالت میں کچے راستے پراپنے گاؤں سے جلد از جلد دور  بھاگ رہاتھا۔ڈر کہ کہیں وہ پکڑا ہی نہ جائے اور دوبارہ کھیتوں میں مزدوری پر نہ لگا دیا جائے۔ آج اگر احمر کی ماں