Men Zindagii

   اس Category   میں نوجوانوں کے لیے لکھی گئی دلچسپ کہانیاں شامل ہیں۔ زندگی کے مشکل اور الجھن بھرے لمحات سے کیسے نمٹناہے اور اپنے رب کو کیسے راضی  کیسے کرنا ہے، یہ جاننے  کے لیے یہ کہانیاں ضرور پڑھیں۔


’’میں واری میں صدقے! اللہ نے کیسی سوہنی بہو دی ہے مجھے! بھئی ل! چلو چلو کمرہ خالی کرو اب۔‘‘ الفت بیگم نے کہا تو لڑکیا ں ہنستی کھلکھاتی جانے لگیں۔

ان کے جانے کے کافی دیر بعد بھی دلہا میاں کمرے میں نہ آئے تو صوفیہ نے سر اٹھایااور ادھر ادھر دیکھا۔ کمرے کی سجاوٹ میں سرخ رنگ کا استعمال بہت زیادہ کیا گیا تھا ۔سنہری لڑیاں بھی تقریباً ہر دیوار پر اپنی چمک دکھا رہی تھیں۔

’’چلو کوئی بات نہیں! میں یہاں رہوں گی تو سب کو اپنے ذوق کے مطابق ڈھال ہی لوں گی۔‘‘ صوفیہ نے مسکراتے ہوئے سوچا۔

اسی وقت دروازہ کھلااور عبدالکریم کمرے میں داخل ہوا۔ وہ کافی دیر اپنی ماں کے پاس بیٹھ کر آیا تھا۔ اس کے کانوں میں ابھی تک ماں کی نصیحتیں گونج رہی تھیں۔

’’بھئی ڈاکٹر ہے توکیا ہوا! اب سر پر نہ چڑھا لینا بیوی کو۔ پڑھی لکھی ہے تو ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ دو پلازے ہیں ہمارے مین مارکیٹ میں ۔ بڑا اس کی ماں بن بن کے کہہ رہی تھی۔ میری بیٹی تو ڈاکٹر ہےمیں نے کوئی کام نہیں کروایا اس سے۔ بھئی ہمیں کیا لگے ڈاکٹر ہے یا انجنیئر۔ بھئی ہمیں تو گھرسنبھالنے والی چاہیے تھی سو ہم لے آئے۔ اب تم زیادہ ناز مت اٹھانا۔ بیوی ہے تو جوتے تلے ہی رکھناسمجھے۔ ‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’روکو روکو یہاں روک دو!‘‘ میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا تو اس نے ایک طرف ٹیکسی پارک کر دی۔ 

’’یہ لو بھائی!‘‘ میں نے بڑی مشکل سے اسے کرایہ تھمایا کہ ہاتھوں کا رعشہ اب بڑھ گیا تھا۔ علاج تو بہت کرایا لیکن بھائی! بڑھاپا خود ایسی بیماری ہے جس کاتنا علاج کروا لو بڑھتا ہی جاتا ہے۔ 70 سال کی عمر میں میں اپنے ہاتھ سے کھا پی لیتا ہوں  اور اپنی ٹانگوں پر چل کر حاجت کر لیتا ہوں ، بس یہ میرے لیے کافی ہے۔ بیٹے کے گھر کی ایک کوٹھڑی میں پڑا رہتا ہوں۔ ملازم دروازے پر ہی کھانے کی ٹرےرکھ جاتا ہے کہ اندر کمرے سے اس کو بدبو آتی ہے۔ بھئی میری بیڈ شیٹ بھی تو کئی مہینوں سے نہیں بدلی۔ نہ ہی کونوں کھدروں کے جالے کسی نے اتارے ہیں۔ جب اولاد کے دل پر جالے پڑ جائیں تو باپ کے کمرے میں لگے جالے اسے کہاں نظر آتے ہیں؟

"بزرگو! دروازہ بند بھی کردو۔ یونہی کھڑے رہو گے کیا؟ جانا نہیں تھا تو ٹیکسی کیوں رکوائی تھی۔ بیٹھو دوبارہ۔ جہاں کہو گے چھوڑ دوں گا۔" 

سب کچھ اچھا جا رہا تھا لیکن عادل کو نہ جانے کیوں بے چینی سی تھی۔ آج وہ غازی کے بےحد اصرار پر پارٹی میں شریک ہوا تھا۔ اس وقت وہ چاروں دوست ایک  فلیٹ میں موجود تھے۔ تاش اور وی سی آر کا انتظام پہلے سے موجود تھا اور کھانا انہوں نے آرڈر کر کے منگوا لیا تھا۔

عادل بار بار جانے کے لیے اٹھتا تو دوست اس کو بٹھا لیتے۔ اچانک پولیس کے سائرن کی آوا ز سنائی دینے لگی۔ چاروں ہڑبڑا گئے۔ انہوں نے جلدی سے اٹھ کر کھڑ کی سے نیچے دیکھا۔

پولیس والے اب گاڑیوں سے اتر کر بلڈنگ کاگھیراؤ کر رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بنگلہ دیشی رضاکار کی ڈائری - قسط (1)

’’ہو سکتا ہے اس میں کھانے پینے کا سامان ہو !‘‘

’’یا پھر کچھ اور۔۔‘‘

میں سوچتا جا رہا تھا ۔ وہ برمی مہاجر اب نزدیک آچکا تھا۔ اس کے کاندھے پر ایک لمبے ڈنڈے کے ساتھ بندھی بڑی سی ٹوکری تھی۔ یہ ٹوکری بانس کے ٹکڑوں سے بنی ہوئی تھی ۔ مہاجربڑی احتیاط سے  ٹوکری کو سنبھالے اونچے نیچے راستے پر چلتا آرہا تھا۔

’’آخر کیا ہے اس میں؟‘‘ میں نے الجھن سے سوچا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بنگلہ دیشی رضاکار کی ڈائری - قسط 2)

میرا کام بچھڑے ہوؤں کو ملانا ہے۔ میں بنگلہ دیشی سرحد پر واقع برمی مہاجرین کے کیمپ میں ہوتا ہوں۔آج کل  لاپتہ افراد کے دفترمیں میری ڈیوٹی ہے۔ ہر روز میں بیسیوں اعلان کرتا ہوں۔ 

"سکینہ زوجہ محمد عمران کے کوئی رشتہ دار ہوں تو آکر لے جائیں۔"

"عبد الباری عمر 10 سال والد کا نام عبداللہ بتاتا ہے، بچے کے جاننے والے کیمپ آکر رابطہ کریں۔" 

"زینب بنت عمر خورشید عمر 15 سال۔ رشتہ دار رابطہ کریں۔" 

میری یہ آواز مائیک کے ذریعے کیمپ کے دور قریب گونجتی جاتی ہے۔ لوگ پریشان حال  آتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں امید اور دکھ ہوتا ہے۔ اپنوں کے مل جانے کی امید اور اپنوں ہی کے بچھڑ جانے کادکھ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دن ایک بوڑھے میاں بیوی آئے۔ ان کی جوان بیٹی کو برمی درندوں نے ریپ کا نشانہ بنا کر زندہ جلا دیا تھا۔ اس وقت سے ان کی  کمسن جڑواں نواسیوں کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ 

وہ آئے اور خیمے میں داخل ہو کر لاوارث  بچوں کو غور سے دیکھنے لگے۔

عمارہ جلدی کرو! ہم لیٹ ہو رہے ہیں۔ ہال دس بجے بند ہو جاتے ہیں آج کل اور تمھارا میک اپ ختم نہیں ہو رہا۔‘‘ زاہد صاحب جھنجھلاتے ہوئے بولے۔

’’جی بس ! ابھی آئی! ‘‘ عمارہ نے کوئی تیسری بار کہا۔ وہ اس وقت ڈریسنگ روم میں میک اپ کو فائنل ٹچ دے رہی تھی۔

’’ٹوں ٹوں! ‘‘ اتنے میں عمارہ کا موبائل بج اٹھا۔

’’عمارہ تمھارا موبائل۔۔‘‘ زاہد صاحب نے سائیڈ ٹیبل پر پڑ ا موبائل اٹھایا اور ڈریسنگ روم میں جانے لگے۔

’’آپ پڑھ لیں ناں۔ امی کا ہوگامیسج۔‘‘ عمارہ دوپٹے کوپنوں سے سیٹ کرتی ہوئی بولی تو زاہد صاحب میسج کھول کر پڑھنے لگے۔

’’Love You  Ammarah! I miss You so much. Nabeel.‘‘

’’عمارہ!‘‘ زاہد صاحب کے لہجے میں نہ جانے کیا کیا تھا کہ عمارہ کے ہاتھ جہاں تھے وہیں رک گئے۔

اس گھر میں ایسا کیا ہے جس پر ساجدہ اتنی شکرگزار ہے؟  سمیہ نے اپنے دل میں سوچا۔

اور پھر جتنی دیر سمیہ وہاں رہی، غیر محسوس طور پر ساجدہ کا جائزہ لیتی رہی۔ وہ اللہ کی بندی ہر ہر بات پہ الحمدللہ کہتی۔

چائے بنانے کے لئے اٹھی تو شکر الحمدلله!

فریج سے دودھ نکالنے لگی تو الحمدللہ ۔ پھر چائے لے کر بیٹھی تو زبان پر وہی کلمہ۔شکر ہے پروردگار کا، بڑی نعمتوں میں رکھا ہوا ہے ۔