Men Zindagii

   اس Category   میں نوجوانوں کے لیے لکھی گئی دلچسپ کہانیاں شامل ہیں۔ زندگی کے مشکل اور الجھن بھرے لمحات سے کیسے نمٹناہے اور اپنے رب کو کیسے راضی  کیسے کرنا ہے، یہ جاننے  کے لیے یہ کہانیاں ضرور پڑھیں۔


شادی سے پہلے جاب کرنا بینا کی ضرورت تھی۔ اس نے فزکس میں ایم ایس سی کر رکھا تھا۔ اچانک والد صاحب وفات پاگئے تو سارا خرچہ اکلوتے بھائی کے ذمے ٹھہرا جو شادی شدہ اور چار بچوں کا باپ تھا۔ پہلے پہل تو اس نے خوشدلی سے اپنی ماں، بینا اور اس کی چھوٹی بہن کا خرچہ بھیجا پھر کترانے لگا۔ آہستہ آہستہ یوں ہونے لگا کہ چھ ماہ بیت جاتے اور امجد بھائی کی جانب سے ایک روپیہ بھی نہ آتا۔گھر کی چیزیں بکنے پر آئیں تو بینا نے گھر سے باہر قدم رکھ دیا۔

بینا کو ایک مقامی کالج میں جاب ملی تھی۔ گو اس نے گورنمنٹ کالجز میں بھی اپلائی کرنے کا سوچ لیا تھا لیکن ابھی کے لیے یہ جاب بھی بہت تھی۔

خیر! انہی ایک جیسے دنوں میں بینا کا رشتہ آگیا۔ اماں نے کافی پہلے سے ہی رشتہ والی خالہ کو کہا رکھا تھا۔ آج وہ لوگ بینا کو دیکھنے آرہے تھے۔

’’بینا! میری بٹیا! آج یہ والا سوٹ پہن لینا اور ہاں ! تھوڑا بہت میک اپ بھی کر لینا۔زاہد کے گھر والے آرہے ہیں۔‘‘

کالج سے تھکی ہاری آئی ہوئی بینا نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر بیڈ پر پڑے ہوئے گلابی جوڑے کو دیکھا اور سر ہلا دیا۔

’’سنیں ! آج ڈاکٹر فردوس کے پاس جانا ہے۔ آپ کو یاد ہے ناں!‘‘ کوثر نے یاد کروایا۔

’’ہاں! یاد ہے جی! آپ کی کوئی بات میں کیسے بھول سکتا ہوں۔‘‘ حاشر نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ان کی شادی کو چھ ماہ ہو چلے تھے۔ حاشر بے حد محبت کرنے والا اور بہت خیال رکھنے والا شوہر تھا۔ کوثر بھی اچھی بیوی کی ذمہ داریاں بہت اچھی طرح نبھا رہی تھی۔

شام کو ڈاکٹر فردوس سے واپسی پر حاشر کہنے لگا۔

’’بھئی یہ ڈاکٹر تو اچھی خاصی مہنگی ہے۔ صرف فلو کی دوائی وغیرہ کے لیے ہزار روپے لے لیے۔‘‘

’’السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!‘‘

’’ارے! وعلیکم السلام  افضل صاحب !بھئ کیسے مزاج ہیں آپ کے؟ ‘‘

افضل صاحب نماز عصر کی ادائیگی کے بعد مسجد کے باہر  مختلف ٹھیلوں سے چیزیں خریدنے میں مگن تھے جب طارق صاحب کی آواز پہ چونکے اور فورا پلٹے ۔

’’جی طارق میاں اللہ کا خاص کرم ہے۔ آپ سنائیں۔‘‘

’’بھئ ہمارے حال بھی اچھے ہیں اللہ کے فضل سے۔‘‘ طارق صاحب نے پر جوش انداز میں جواب دیا۔

 ’’کتنے پیسے دیے تھے  تمھارے ابو نے؟  بس یہی چالیں ہیں ان کی۔ عید عید پر  ہم ملنے کیا چلے جاتے ہیں ہمیشہ اپنا دکھڑا لے کر بیٹھ جاتی ہیں۔ بس ہماری کمائی پر نظر ہے ان کی۔ ‘‘ امی  پھپھو کے گھر سے واپسی پر غصے سے بڑبڑا رہی تھیں۔ آج عید کا دن تھا۔ ہم پہلے ماموں کے گھر گئے ۔ وہاں نانا ابو سے خوب باتیں کیں۔ماموں کے بڑے سے لان میں ہم سب  کزنز نے آنکھ مچولی کھیلی۔   بہت مزہ آیا۔

پہلے نانا ابو ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے۔ ابو چونکہ کافی عرصہ باہر رہے تھے  تو نانا ابو اور نانی جان ہی ہمارے ساتھ تھیں۔ اس لیے ہم سب بہن بھائی ان سے کافی اٹیچ تھے۔ ماموں کے گھر سے واپسی پر اچانک ابو جان نے گاڑی پھپھو کے گھر کی طرف موڑ لی۔ یہیں سے امی کا موڈ خراب ہونا شروع ہوا۔ ابو کے سامنے وہ زیادہ تو کچھ نہیں کہہ سکتی تھں بس دبے دبے لہجے میں اتنا کہا۔

’’کیا ضرورت ہے جانے کی۔ گھر میں مہمان آنے والے ہوں گے۔اتنے کام پڑے ہیں۔‘‘

 ’’ویسے  اب میرا دل کرتا ہے ہم اپنے ملک  اپنے پاکستان جا کر رہیں۔‘‘ خان صاحب  تھکے تھکے انداز میں بولے  اور میں میرا  تو ہاسا  ہی نکل گیا۔

  ’’میں تم سےاس قدر  سیریس میٹر  پر تم  سے بات کر  رہا ہوں  اور  تم۔۔۔‘‘ انہوں نے اچھی خاصی جھاڑ پلا دی ۔

’’اچھا چلیں ، نہیں ہنستی ، آپ ویسے پوچھنے کی زحمت  گوارا  کرتے  تو میں آپکو  ہنسنے کی وجہ  بتاتی ، لیکن  خیر ! میں نے ٹھنڈی سانس  بھر کر بات ادھوری  چھوڑ دی  جس کا ان پر  کوئی اثر نہیں  ہوا  وہ  اپنے  ہی کسی غم میں ڈوبے نظر آ رہے  تھے ۔‘‘

’’ بتا بھی دیں عبدل  کے پاپا   کیا وجہ ہو گئی؟‘‘ میں نے  پوچھا ۔

  ہم یہی رویے دیکھ کر بڑے ہوتے گئے۔ نانا جان کو ملنے جانا ہو تو امی ہر وقت تیار ۔ تایا ابو کی طبیعت پوچھنے جانا ہے تو امی نے مشین لگا لی ہے اور باجی کا ٹیسٹ بھی ہے۔ ماموں کے گھر جاتے وقت مٹھائی اور پھل اور پھپھو کے گھر کچھ لے کر جانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ کون تین دن تک امی کے خراب ترین موڈ کا سامنا کرے۔ ابو بھی اسی ڈگر پر چل نکلے تھے اور اب انہیں بالکل عجیب نہیں لگتا تھا جب پھپھو کی شکل دیکھے ہوئے بھی انہیں کئی سال  ہو جاتے۔

اس دن گاؤں میں فوتگی ہو گئی۔ابو کی طرف کے سب رشتہ داروں کی حاضری لازمی تھی۔ ہم بھی گئے لیکن سارا راستہ امی کچھ نہ بولیں۔ ابو تو تھے ہی اداس۔ ان کے سگی تائی جان کی ڈیتھ ہو ئی تھی۔ ہم شیشے سے باہر دیکھتے گئے۔ گاؤں میں لہلہاتے سرسوں کے کھیت ہمیں جتنا اٹریکٹ کرتے تھے اتنا شاید ہی کوئی اور منظر کرتا ہو۔

 آئے رو ز کے شور شرابے سے میں تنگ آ گیا ہوں بیگم! شیخ راشد نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔ تمہارے وعدوں نے مجھے مار دیا ہے۔ کب سے کہہ رہی ہو کہ کوئی نوکر رکھ کر مجھ سے اب گھر کا کام کاج نہیں ہوتا۔ بیگم نے تحکمانہ انداز میں جواب دیا۔ بس بس! سن لیا کون سا وعدہ؟ شیخ راشد بولے۔

وہ نوکر رکھنے کا وعدہ اور کیا؟ بیگم نے تنک کر کہا۔

اگلے روز شیخ راشد گھر میں داخل ہوئے تو ان کے ساتھ کوئی اجنبی لڑکا تھا۔ ان کی بیگم نے اس لڑکے کی طرف حیران ہو کر دیکھا اور کہا کہ یہ آپ کسے لے آئے ہیں ؟ خود ہی تو بیس پچیس دن سے کہہ رہی تھیں کہ گھر کے کام کاج کے لیے کوئی ملازم ہونا چاہیے۔ سو لے آیا ہوں۔ اب گھر کا سارا سامان اس سے منگوا لیا کریں۔

شیخ راشد نے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔