Men Zindagii

   اس Category   میں نوجوانوں کے لیے لکھی گئی دلچسپ کہانیاں شامل ہیں۔ زندگی کے مشکل اور الجھن بھرے لمحات سے کیسے نمٹناہے اور اپنے رب کو کیسے راضی  کیسے کرنا ہے، یہ جاننے  کے لیے یہ کہانیاں ضرور پڑھیں۔


ضمیر کی آواز

          Print

25 جون کی یہ حسین صبح تھی۔ یعنی میری اکیسیوں سالگرہ کا دن تھا۔ ویسے تو اس دن کی تیاریاں کافی دن سے عروج پر تھیں۔ ایک فٹ لمبے کیک کا آرڈر بھی دیا جاچکا تھا۔ مختلف احباب کے کارڈز اور گفٹ کا جم غفیر گھر کے ایک کونے میں جمع تھا۔آج تو تقریب کا باقاعدہ آغاز ہونا تھا۔ اس لیے سویرے ہی دوستوں کا تانتا بندھ چکا تھا۔ میرے چاہنے والوں کی اتنی تعداد، میں تو آج خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ ساتھ ساتھ فخر کا جن بھی سر پر سوار ہوچکا تھا۔

دودھ کا گلاس

          Print

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی  شہر میں ایک بہت ہی غریب لڑکا رہتا تھا ۔ لڑکا غریب ضرور تھا مگر انتہائی باہمت بھی تھا ۔ وہ اپنی  روز مرّہ زندگی کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مزدوری کیا کرتا تھا ۔ ان دنوں وہ گلی محلوں میں  چھوٹی موٹی چیزیں بیچ کر  اپنے کھانے پینے اور پڑھائی کا خرچہ نکالتا تھا ۔  ایک  دن  وہ ایک  محلے سے گزر رہا تھا کہ اسے شدید بھوک کا احساس ہوا ۔ اس نے  روپے دیکھنے کے لیے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا مگر اسے اس وقت شدید مایوسی ہوئی جب اسے یہ معلوم ہوا کہ جیب میں تو صرف ایک ہی سکہ باقی رہ گیا ہے اور اس ایک سکے سے تو کھانے پینے کی کوئی بھی چیز نہیں خریدی جا سکتی ہے ۔  اس نے فیصلہ کیا کہ کسی قریبی گھر سے غذا مانگ لی جائے ۔ اتفاقی طور پر اس نے ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا  ۔ ایک بوڑھی اماں نے  دروازہ کھولا ۔

محبت کی آخری رات

          Print

... وطن کے اس نڈر اور بہادر سرفروش، مطیع الرحمٰن نظامی کے نام جو خود تو چلا گیا لیکن  وطن ِ پاکستان سے محبت کا ایک ایسا لازوال کردا رچھوڑ گیا جس کو کبھی پھانسی نہیں دی جا سکتی..........

’’ابھی کچھ دیر پہلے حکومتی کارندے آئے تھے۔ معافی اور اپیل کے کاغذ لے کر۔ میں نے کہا ...کیا شہادت کی موت کو ٹھکرا دوں؟ چلے جاؤ۔ یہ نہیں ہو سکتا!

کچھ دیر بعد میں پھانسی پر لٹکا دیا جاؤں گا۔

!مجھے رونا نہیں آتا

          Print

نہ جانے کیوں میرا دل کہتا ہے کہ مجھے آپ کو اپنی کہانی سنانی چاہیے۔ میں اپنی شناخت ظاہر نہیں کرسکتا ۔  بس اتنا بتا سکتا ہوں  کہ میں ایک پروفیشنل فوٹوگرافر ہوں۔ میں اپنے پورے ادارے میں  Steel Heart یعنی آہنی دل کے نام سے مشہور ہوں۔ میرا دعوٰی ہے کہ مجھے رونا نہیں آتا  چاہے جتنا بھی  غمگین منظر عکس بند کرنا پڑ جائے۔ ہاں! میں یقین  سے کہ سکتا ہوں میری آنکھوں کے گوشے تک نمکین نہیں ہو پاتے چاہے جیسی بھی جذباتی فوٹو مجھے لینی پڑ جائے۔

امید کی چابی

          Print

’’دیکھو اماں ! میں نے تمھیں کئی بار بتایا ہے تم اس تار سے آگے نہیں جا سکتی۔ ‘‘ میں نے گیٹ پر پڑے ہوئے بڑے سے قفل کو اچھی طرح چیک کرتے ہوئے کہا۔

میں اس وقت تپتی دھوپ میں اس خاردار تار کے بیچ میں بنے ہوئے گیٹ پر چوکیداری کر رہا تھا۔ یہ لبنان کا سرحدی علاقہ ہے۔ اس سے آگے فلسطین کی سرحد شروع ہو جاتی ہے۔

’’پر میرے پاس چابی ہے۔ بس تم مجھے جانے دو۔‘‘  سفید برف جیسے بالوں والی  یہ اماں ہر روز یہاں آکر کھڑی ہو جاتی ہے۔

قاتل

          Print

عارف جعلی دوائیوں کا کاروبار کرتا تھا۔ پہلے پہل اس کی ایک چھوٹی سی دکان تھی اور دوائیاں بھی اس نے اصل رکھی ہوئی تھیں۔ لیکن پھر ایک دوست کے بتانے پر اس نے جعلی دوائیاں رکھنی شروع کیں تو اس مہینے اس کو دگنا منافع ہوا۔ پھر  عارف نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔  اب تو اس نے ایک کی بجائے دو دکانیں  اکھٹی کرائے پر لے لی تھیں۔ کبھی کبھار اس کے اندر حلال اور حرام کی تکرار شروع ہو جاتی لیکن جب وہ  پیسوں سے بھرے ہوئے باکس پر نظر ڈالتا تو اس کا لالچی دل ضمیر کی آواز کو سلانے میں کامیاب ہو جاتا۔

!کچھ ایسا کرو

          Print

ٹرن ٹرن  ٹرن! 

’’السلام علیکم !‘‘

’’ وعلیکم السلام  ہاں بھئی احمد  کیا تم نے ناشتہ کر لیا ؟  اچھا تو پھر جلدی سے داؤد کے فلیٹ پر پہنچو!  میں گرم گرم حلوہ پوری لارہا ہوں۔‘‘ یہ سفیا ن تھا جو ہمیشہ ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتا تھا۔  

پھر اس نے داؤد کو فون کیا۔  

’’السلام علیکم سفیان خیر تو ہے   ! تم نے اتنی صبح  کیسے  یاد کر لیا ؟‘‘ داؤد کی نیند میں ڈوبی ہوئی آوازسنائی دی۔