ٹرن ٹرن ٹرن!
’’السلام علیکم !‘‘
’’ وعلیکم السلام ہاں بھئی احمد کیا تم نے ناشتہ کر لیا ؟ اچھا تو پھر جلدی سے داؤد کے فلیٹ پر پہنچو! میں گرم گرم حلوہ پوری لارہا ہوں۔‘‘ یہ سفیا ن تھا جو ہمیشہ ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتا تھا۔
پھر اس نے داؤد کو فون کیا۔
’’السلام علیکم سفیان خیر تو ہے ! تم نے اتنی صبح کیسے یاد کر لیا ؟‘‘ داؤد کی نیند میں ڈوبی ہوئی آوازسنائی دی۔
’’وعلیکم السلام ہاں خیر ہے ، بس میں تو پوچھ رہا تھا کہ آج کا کیا پروگرام ہے ؟‘‘ سفیان نے پوچھا۔
’’کوئی خاص نہیں۔ کیوں؟‘‘ داؤد نے کہا۔
’’بس پھر تم برتن نکال لو۔ میں آرہا ہوں ناشتہ لے کر! احمد کو بھی کہ دیا ہے۔‘‘ سفیان نے بتایااور فون رکھ دیا۔
آدھے گھنٹے کے بعد تینوں دوست دسترخوان پر بیٹھ کر ناشتہ کر رہے تھے ۔ فارغ ہونے کے بعد احمد اپنے دونوں دوستوں کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھ کر اپنی یونیورسٹی کی خوبصورت یادیں دہرا رہے تھے جو ان کا ہمیشہ کا مشغلہ تھا لیکن احمد آج کافی دیر سے خاموش بیٹھ کر سفیان اور داود کی باتیں سن رہا تھا۔
سفیان نے احمد سے کہا :’’ بھائی کیا بات ہے تم تو کچھ بول ہی نہیں رہے۔ کیا سوچ رہے ہو؟‘‘
داؤد نے بھی احمد کی گدی پر ہاتھ مارا۔ ’’ سب خیرتو ہے؟ اتنے چپ چپ کیوں ہو؟ کوئی پریشانی ہے تو بتاؤ ؟‘‘
’’بس یار!‘‘ احمد نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا۔’’کتنے عرصے سے میرے بابا مجھے جاب کرنے کا کہہ رہے تھے اور میں ان کی بات کاٹ دیتا تھا اور کہتا تھا کہ آپ کو اگر میرا گھر میں رہنا پسند نہیں تو میں گھر سے چلا جاتا ہوں۔ میرے سے یہ نوکروں والی جاب بالکل نہیں ہو سکتی۔ آپ نے اپنے افسروں کی جھڑکیاں کیا کم کھائی ہیں جو میں بھی یہی کام کرنے لگ جاؤں؟ لیکن کل۔۔۔ کل میں نے کھڑکی سے دیکھا۔۔ بابا جان باہر برآمدے میں بیٹھے تھے اور امی سے میری یہی باتیں دہرا رہے تھے ۔ ان کی آنکھو ں میں آئے ہوئے آنسوؤں کو دیکھ کر میرا دل لرز گیا ۔ میں اتنی ندامت اور شرمندگی محسوس کر رہاہوں جس کی حد نہیں۔‘‘
سفیان کہنے لگا۔ ’’دیکھودوستو ! ہم اب عملی زندگی میں قدم رکھ چکے ہیں اور ہمارے والدین کو ہم سے بہت ساری توقعات اور امیدیں وابستہ ہیں۔ تم دونوں کو یاد ہے ہم نے بچپن کتنا اچھا گزارا ہے،ہمارے ماں باپ ہماری کس قدرتوجہ اور محبت سے دیکھ بھال کرتے تھے ، صبح سکول بھیجنا پھر ہمارا انتظار کرنا ،جب لوٹ آتے تو اماں پیار سے کھانا کھلاتیں اور آرام کرواتیں۔ شام میں بابا جان ہمارے ساتھ کھیلتے۔ آج جب ہم پڑھ لکھ کر کامیاب بن گئے تو اپنی زندگیوں میں گم ہو گئے۔ ہم نے اپنے والدین کی امیدوں کو پس پشت ڈال دیا۔ یہ دیکھ کر ہمارے والدین کے دل ٹوٹ جاتے ہیں لیکن وہ ہم سے کہ نہیں پاتے۔‘‘
داؤد کہنے لگا۔ ’’ہاں یار ! تم صحیح کہتے ہو! اور یار! یہ بھی سچ ہے کہ ہم اپنے ماں باپ کا پوری طرح خیال ہی نہیں رکھتے۔آج جب ان کو ہماری ضرورت ہے تو ہم ان کا حا ل تک پوچھتے نہیں ہیں بلکہ الٹا ان سے بے ادبی سے بات کرتے ہیں اور سارا وقت اپنی مصروفیات میں گم رہتے ہیں۔‘‘
ادھر ادھر کی باتوں کے دوران ہی احمد نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ کل ہی سے بابا کے ساتھ آفس جانے شروع کرے گااور ان سے اپنے گزشتہ رویے کی معافی مانگے گا۔ سفیان سوچ رہا تھا اتنے دن ہو گئے اماں کی دوائی کی پرچی کہیں نہ کہیں رکھ کر بھول چکا ہوں۔ وہ زیادہ تو کچھ نہیں کہتیں لیکن میں اب ان کو مزید کوئی تکلیف نہیں دوں گا اورا ن کا ہر کام میری پہلی ترجیح ہو گی۔ داؤد کے دل میں آرہا تھا کہ آج ہی اماں ابا سے فون پر ڈھیر ساری باتیں کرنی ہیں۔ کیا ہوا جو وہ شہر سے باہر ہیں۔میں روز ایک ٹائم مقرر کر کے ان سے چھوٹی چھوٹی باتیں کیا کروں گا۔
کچھ دیر بعد جب وہ تینوں اپنے گھروں کی جانب روانہ ہو رہے تھے تو ان کے ذہن میں ایک ہی جملہ آرہا تھا جو ان کے ایک پروفیسر اکثر کہا کرتے تھے۔ ’’ماں باپ سے نہ کہو کہ ہمارے لیے دعا کریں۔ بلکہ کچھ ایسا کرو کہ وہ دل سے خوش ہو جائیں اور اپنا آپ ایسا بناؤ کہ وہ خود بخود دعائیں دینے لگیں۔ ‘‘
{rsform 7}