بی مانو کی سیر

میرے سوہنے موہنے بچو! بی مانو جب سے اس گھر میں رہنے آئی تھیں ان کے توعیش ہو گئے تھے۔ کبھی کوئی بچہ ان کے لیے گرم دودھ اور ڈبل روٹی لا رہا ہے۔ کبھی گھر کی آیا گوشت کے چھیچھڑے الگ کر کے ان کے آگے رہی ہیں۔ اور ان کے نرم گداز بستر کی تو کیا بات تھی!

یہ دراصل ایک چھوٹا سا گتے کا ڈبہ تھا جس کو گھر والوں نے بڑی خوبصورتی سے بی مانو کے گھر میں بدل دیا تھا۔ چھت کو سرخ رنگ کیا تھا ۔ اندرونی دیواریں سبز اوربیرونی دیواریں زرد رنگ کی تھیں۔ بستر کا رنگ سفید تھا اور کھانے کا پیالہ گلابی رنگ سے رنگا گیا تھا۔خود بی مانو بھی تو اتنی پیاری تھیں! نیلی آنکھیں ، گلابی کان اور پوری کی پوری سفیدملائم بالوں سے ڈھکی ہوئی۔  

میرے پیارے بچو! آپ کو ایک حیرانی کی بات بتاؤں! بی مانو کو اپنے گھر میں رہنا بالکل پسند نہیں تھا۔ اکثر وہ گھر والوں کی نظر بچاتے ہی دیوار سے کود جاتیں ۔ فٹ پاتھ کے کنارے اگی ہوئی چھوٹی چھوٹی سی سبز گھاس پر خوب کھیلتیں۔ سامنے والے پلاٹ میں تعمیر کا کام ہو رہا تھا۔ وہاں ریت کا ایک چھوٹا سا ڈھیر بی مانو کی فیورٹ جگہ تھی۔ جب رات ہوتی تو بی مانو چپکے سے دبے پاؤں نکلتیں اور ریت پر آکر بیٹھ جاتیں۔

  بی مانو کے گھومنے پھرنے کے اس شوق سے گھر والے بہت تنگ تھے۔ دن میں کئی بار بی مانو کو نیم گرم پانی سے نہلایا جاتا۔ اچھی طرح شیمپو کیا جاتا۔ پھر جب صاف تولیہ سے انہیں خوب خشک کیا جاتا تو ان کے سفید بال اور پھول جاتے۔مگر کیا کریں! بی مانو کو تو بس یہاں وہاں گھومنے پھرنے کا جنون تھا۔

ایک دوپہر جب سب سو گئے تو  حسب عادت بی مانو نے دیوار پھلانگی اور سڑک پر آگئیں۔ لیکن یہ کیا! سڑک کے دوسرے کنارےایک لمبے چوڑے سے پالتو کتے میاں، جمی کھڑے تھے۔جیسے ہی انہوں نے بی مانو کو دیکھا تو لگے بھونکنے۔ بی مانو کے تو گویا حواس نے ہی ساتھ چھوڑ دیا۔انہوں نے ایک لمبی دوڑ  لگائی اور پڑوسیوں کی  کیاری میں پہنچ گئیں۔ پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو جمی میاں بھونکتے ہوئے اسی سمت  آرہےتھے۔

یہ دیکھ کر بی مانودیوار پر چڑھ گئیں۔ساتھ ہی امرود کا درخت تھا ۔ بی مانو سبز پتوں میں چھپ کر بیٹھ گئیں۔ جمی میاں پہلے تو کیاری میں کھڑے بھونکتے رہے پھر وہ کچھ  دور جا کر کھڑے ہو گئے۔ یعنی وہ بی مانو کو اتنی آسانی سے نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔

’’بی مانو! یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘ یہ بی چڑیا  کی آواز تھی۔ اس کا یہیں امرود کی شاخوں میں ایک بڑا سا گھونسلہ تھا۔

’’وہ بس یونہی!  ہوا لینے کے لیے آ گئی۔ ‘‘ بی مانو نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔ وہ بی چڑیا کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتی تھیں۔  

’’دیکھو بی مانو! میں ایک کام سے  جامن کے درخت تک جا رہی ہوں۔ میرے تین چھوٹے چھوٹے بچے گھونسلے میں سو رہے ہیں۔ اگر تم نے انہیں چھیڑا تو۔۔‘‘ بی چڑیا کی آواز میں غصہ تھا۔

’’ارے نہیں نہیں! یہ کیسی باتیں کر رہی ہو۔ اتنے دنوں کی محلے داری ہے۔ میں نے آج تک تمھارےبچوں کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ میں تو بس ۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے بی مانو نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا۔ جمی میاں وہیں کھڑے  تھے اور آہستہ آہستہ بھونک رہے تھے۔’’سیر کرنے یہاں چلی آئی۔‘‘

 لیکن بی چڑیا کو غصہ آرہا تھا۔ اگرجامن والے ڈاکٹر چڑے کے پاس نہ جانا پڑتا تو بی مانو کی خوب خبر لیتی۔ انہوں نے سوچا۔

’’ہونہہ! اپنے گھر میں ٹکتی نہیں ہیں اور دوسروں کو تنگ کرنے آجاتی ہیں!‘‘ یہ کہ کر بی چڑیا اڑ گئی۔

بی مانو کو یکدم بے حد شرمندگی محسوس ہوئی۔ مجھے  ایسے گھر سے نہیں نکلنا چاہیے تھا۔ اپنا گھر تو اپنا ہی ہوتاہے۔دیکھو تو بی چڑیا کیسے بات کر کے گئی ہے۔  میرے گھرمیں تو کوئی میرے سے اس طرح بات نہیں کرتا۔

 اب میں کیا کروں۔ یہ سوچتے ہوئے انہوں نے سڑک کی جانب دیکھا۔ ساری سڑک خالی پڑی تھی۔ جمی میاں اکتا کر واپس چلے گئے تھے۔

بی مانو کے تو جسم میں مانو جان آ گئی۔ انہوں نے ایک لمبی جست لگائی ۔ پھر تیزی سے فٹ پاتھ پر دوڑتے ہوئے اپنے گیٹ کے نیچے سے گھر  اندر داخل ہو گئیں۔

جب بی مانو اپنے نرم نرم بستر پر سر رکھ رہی تھیں تو انہوں نے سوچا۔ امرود کے پتوں کی ہواچاہے کتنی ہی اچھی ہو ، اپنے گھر کی ٹھنڈک ، سکون اور عزت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔


{rsform 7}