Anjoo aur bakrey mian

  بقر عید سے تین دن پہلے گھر میں بکرا کیا آیا ہر طرف ہلچل ہی مچ گئی۔ جب دیکھو بکرے میاں کی خدمتیں ہو رہی ہیں۔ بھیا تازہ چارہ لا کر کھلا رہے ہیں۔ ابا جان نہلا دھلا کر صاف ستھرا کر رہے ہیں۔ دادا اباخاکروب کو صفائی کی ہدایات دے رہے ہیں۔ دادی اماں بکرے کو پھلوں کے چھلکے کھلانے پر بضد ہیں۔ آپا چارے کی ٹوکری اچھی طرح صاف کر رہی ہیں۔ ماما جان بکرے کو پہنانے کے لیے ہار بنا رہی ہیں۔

 

رہی ہماری انجو! تو ان کا صرف ایک ہی ارمان ہے۔ وہ یہ کہ کسی طرح بکرے کے پاس پہنچ جائیں اور اس کی کمر پر اپنا ننھا سا ہاتھ پھیریں۔ بڑے بڑے سینگوں والا بکرا ہر وقت ادھر ادھر ٹکریں مار رہا ہے۔لیکن  ہم آپ کو بتائیں! ہماری انجو بہت بہادر ہیں۔ ابھی بکرے کو آئے ایک دن پورا نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے بکرے میاں سےدوستی کر لی۔

غصیلے بکرے میاں کو بھی انجو پر بالکل غصہ نہیں آتا ۔ بلکہ وہ اب اس اتنظارمیں ہوتے ہیں کہ کب ان کی ننھی منی سی دوست آئے گی اور ان کو اپنے ہاتھ سے کیلے کے چھلکے کھلائے گی۔  

اب روز صبح اٹھ کر ننھی انجو آنکھیں ملتی ہوئی بکرے  کے پا س پہنچ جاتی ہیں۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ کہیں بکرے میاں کو ذبح تو کر لیا گیا۔ ان کا پورا زور اسی بات ہے کہ بکرے میاں ہمارے دوست ہیں۔ یہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ اس کو ذبح بالکل نہ کیا جائے۔

آخر کار عید کا دن بھی آ پہنچا۔ ابا میاں  عید کی نماز پڑھ کر آئے تو قصائی کو بھی ساتھ لیتے آئے۔ ابھی چھریاں تیز کی جارہی تھیں کہ انجو صحن میں آ نکلیں۔ ننھی ننھی سرخ چوڑیاں اور سرخ فراک پہنے انجو  نانو کے گھر جانے کے لیے بہت خوش تھیں۔ لیکن یہ کیا! ان کا گہر ادوست ان سے دور ہونے جارہا تھا۔

جیسے ہی ان کی نظر لمبی لمبی چھریوں پر پڑی انہوں نے گلا پھاڑ کر رونا شروع کر دیا۔ ’’آں ں ں ں! میرا بکرا! میرا بکرا!  ‘‘ابا جان نے انہیں پیار کیا اور بھیا انہیں اٹھا کر ماما جان کے پاس چھوڑ آئے۔

انجو کی سسکیاں ماماجان کی گود میں جا کر بھی نہیں رکیں۔ آخر کار دادی جان کو پتہ لگا تو انہوں نے انجو کو  بہت پیار سے سمجھایا۔

’’میری پیار ی انجو بٹیا! یہ بڑی عید یعنی عید الاضحیٰ ہے۔ اس عید پر جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے۔ ہم ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ یہ اللہ میاں کا حکم ہے۔ ہزاروں سال پہلے اللہ میاں کے ایک پیارے نبی حضرت ابراھیم علیہ السلام نے بھی ایک اسی دن ایک جانور ذبح کیا تھا۔ ‘‘ دادی جان کہ رہی  تھیں۔

’’لیکن دادو! مجھے بکرا اچھا لگتا تھا!‘‘ یہ کہتے ہوئے انجو روہانسی ہی تو ہو ئی گئیں ۔

’’تو ہم آپ کو عید کے بعد ایک چھوٹا سا ، بکری کا بچہ لا دیں گے۔ آپ اس کے ساتھ خوب کھیلنا۔ ‘‘ دادو جان نے مسکراتے ہوئے کہا اور انجو کو گود سے اتار دیا۔

’’میری پیار انجو! اب آپ جا کر دسترخوان پر بیٹھیں۔ میں آپ کے لیے سویاں لاتی ہوں۔ ‘‘

’’لیکن دادو جان! ہم بکرے کے بچے کا نام کیا رکھیں گے؟‘‘

’’ہم م م ! مینو!  ٹھیک ہے؟‘‘

’’بالکل ٹھیک! ‘‘ ننھی انجو نے نعرہ لگایا اور باہر بھاگ گئیں۔

کیا انجو کو مینو پسند آیا؟ کیا مینو انجو کے ساتھ مزے مزے کے کھیل کھیل سکے گا؟ یہ جاننے کے لیے اگلے ہفتے کا انتظار کیجیے!