اتوار کی صبح جب انجو کی آنکھ کھلی تووہ اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھیں۔ حالانکہ انہیں اچھی طرح یاد تھا رات کو وہ کھیلتے کھیلتے بھیا کے بیڈ پر سو گئی تھیں۔ انہیں وہاں سے اپنے بستر پر کون لایا یہ تو ان کو یاد نہیں تھا! لیکن بہرحال ان کی نیند اچھی طرح پوری ہو چکی تھی۔اس لیے انہوں نے اوڑھنے والی نیلے پھولوں والی چادر ایک طرف کی اور بستر سے اتر گئیں۔
’’میں۔۔ میں میں۔۔‘‘ اچانک صحن کی طرف کھلنے والی کھڑکی سے ایک چھوٹی سی آوا ز آئی۔
’’ہائیں! میمنا!‘‘ ہماری ننھی منی انجو تو ننگے پاؤں صحن کی جانب بھاگیں۔ وہاں ایک کونے میں واقعی ایک ننھا منا گلابی کانوں والا پیارا سا میمنا کھڑا ہوا تھا۔ ساتھ ہی بھیا بیٹھے اس کو چارہ کھلا رہے تھے۔
’’آؤ انجو! یہ دیکھو۔ بابا آپ کے لیے کیا لے کر آئے ہیں!‘‘ بھیا نے اونچی آواز میں کہا۔
’’ میرا مینو! ‘‘ انجو نے نعرہ مارا اور میمنے کے پاس پہنچ گئیں۔
’’میں نے بھی اس کو کھلانا ہے۔‘‘
’’اچھا! یہ لو۔ یہ بادام اور کشمش ہیں۔ بس یہ اتنے ہی کھلانے ہیں۔‘‘ بھیا نے انجو کی چھوٹی سی ہتھیلی پر کچھ بادام اور کشمش رکھے اور ماما جان کے بلانے پر اندر چل دیے۔
ہماری انجو پہلے تو بڑے غور سے مینو کو دیکھتی رہیں۔ پھر جب مینو للچائی ہوئی نظروں سے ان کی ہتھیلی کو دیکھنے لگا تو ان کو یاد آیا ۔
’’یہ لو! اور دیکھو۔ مجھے چکی نہیں کاٹنا۔ ‘‘
مینو نے یہ سن کر سر ہلا کر چھوٹی سی ’’میں‘‘ کی جیسے کہ رہا ہو۔ جی ٹھیک ہے۔ میں سمجھ گیا ہوں۔
مینو نے دو لقموں میں سب بادا م اور کشمش کھا لیے۔ انجو نے ادھر ادھر دیکھا۔ کرسی پر باداموں کی تھیلی بھری پڑی تھی۔ انہوں نے کچھ اور بادام اپنی ہتھیلی پر رکھے اور مینو کو کھلادیے۔ پھر کچھ کشمش اور اخروٹ۔ اور پھر کاجو۔
ارے آپ خود بتائیں! اتنے سارے ڈرائی فروٹ ہمارا ننھا مینو میمنا کیسے ہضم کرتا؟ بس ہونا کیا تھا! اس کا پیٹ خراب ہو گیا اور کمزوری حد سے زیادہ۔
بابا جان فوراً ڈاکٹر انکل کو لے کر آئے۔ انہوں نے مینو کو چیک کیا۔ دوا دی۔ کچھ باتیں بتائیں اور چائے پی کر چلے گئے۔ ماما جان نے مینو کے لیے سبز پتی کا قہوہ بنایا۔
ادھر ہماری انجو کا رو رو کر برا حال! ’’میرا مینو بیمار ہو گیا! میرا مینو بیمار ہو گیا!‘‘ بابا جان نے تسلی دی۔ ماما جان نے پیار کیا۔ دادو نے مینو کو کھڑا کرکے دکھایا کہ دیکھویہ تو اب ٹھیک ہے۔آپا نے مینو کی ایک پیاری سی قمیص بنائی۔ رہ گئے بھیا تو انہوں نے انجو سے کہا۔
’’میری بہنا! میں نے آپ کو کہا تھا ناں مینو کو بس تھوڑے سے بادام کھلانے ہیں۔ لیکن آپ نے بہت سارے کھلادیے تو یہ بیمار ہو گیا۔ خیر ! دیکھو! ڈاکٹر انکل نے مینو کو دوا دے دی ہے۔ اب یہ دو تین دن میں ٹھیک ہو جائے گا۔ان شاء اللہ ‘‘
’’لیکن ماما جان کہتی ہیں بادام ۔۔تو ہمارےلیے۔۔ اچھے ہوتے ہیں۔ میں نے اسی لیے مینو کو بھی ڈھیر سارے ۔۔۔۔ کھلائے۔‘‘ انجو نے اٹک اٹک کر بتایا۔ وہ یقیناً بہت اداس تھیں۔
’’جی میری بٹیا! ‘‘ اب کے دادی جان بولیں۔ ’’بادام ہم سب کے لیے اچھے ہیں۔ لیکن بہت سارے بادام ایک دم نہیں کھائے جاتے۔ کسی بھی چیز کو زیادہ سارا کھا لیں گے تو پیٹ میں درد ہو جائے گا چاہے وہ بادام ہی کیوں نہ ہوں۔ فائدہ مندچیز تھوڑی تھوڑی کر کے روز کھائیں تو ہماری صحت بہت اچھی رہتی ہے۔ ‘‘ یہ کہ کر دادی جان نے انجو کے پھولے ہوئے گالوں پر چٹکی بھری تو وہ باہر بھاگ گئیں۔