Men Zindagii

   اس Category   میں نوجوانوں کے لیے لکھی گئی دلچسپ کہانیاں شامل ہیں۔ زندگی کے مشکل اور الجھن بھرے لمحات سے کیسے نمٹناہے اور اپنے رب کو کیسے راضی  کیسے کرنا ہے، یہ جاننے  کے لیے یہ کہانیاں ضرور پڑھیں۔


صبح سویرے دادی جان لاٹھی ٹیکتی ہوئیں حذیفہ کے کمرے میں آئیں تو وہ بال بنائے آنکھوں پر بلیک گلاسز چڑھائے آئینے میں اپنا تنقیدی جائزہ لینے میں مصروف تھا۔

’’بیٹاکیاکررہے ہو۔ ‘‘
’’میں کیسالگ رہاہوں دادی جان !‘‘ اس نے پلٹ کردادی جان کی طرف دیکھا۔
’’ہائیں یہ کیا حلیہ بنارکھاہے ؟‘‘ انہوں نے حیرت سے اسے سرسے پاؤں تک غورسے دیکھا۔ دادی جان نے اس کی پینٹ شرٹ کے رنگ کو بالکل پسند نہیں کیا۔

 مجھے اپنی والدہ سے دلی محبت تھی۔ وہ بھی میرے بغیر دسترخوان پر نہیں بیٹھتی تھیں، جب تک گھر نہیں آتا تھا وہ دروازے پر بے تابی سے میرا انتظار کیا کرتی تھیں، گھر کے سبھی افراد کے نظروں میں میری اہمیت تھی کیوں کہ میں پڑھائی بھی کیا کرتا تھا اور چھوٹے موٹے ٹھیکے پر کام کرکے پیسے بھی کماتا تھا، والدہ کی دعائیں اور مدد میرے ساتھ شامل تھی اس لیے بڑے بھائی اور ان کی بیویاں بھی محبت کا اظہار کرتے رہتے تھے، مجھے کئی دن سے اسکردو جانے کی دھن سوار ہوگئی تھی۔ وہاں میرے ماموں رہتے تھے، اسکردو سے آگے ان کا گاؤں تھا والدہ سے اجازت لی۔
وہ رضا مند نہ تھیں، کہنے لگیں، تم ابھی وہاں مت جاؤ 
 مجھے کئی روز سے پریشان کن خواب آرہے ہیں۔ میں صدقہ وغیرہ دے رہی ہوں، جب تک میں اجازت نہ دوں تم اس ارادے سے گھر سے قدم نہ نکالنا۔ ان کے حکم کو میں نے وہم سمجھا اور سولہ اکتوبر کو ان کی اجازت کے بغیر تیاری کرکے راولپنڈی روانہ ہوگیا۔

اکثر اوقات انسان موذی سے موذی مرض اور مہلک سے مہلک حکیم یا ڈاکٹر کے حملوں سے تو بچ جاتا ہے لیکن تیمارداروں کی یلغار کی تاب نہ لا کر چل بستا ہے کچھ پیشہ ور تیماردار تو ایسے موقع کی ٹوہ میں رہتے ہیں کہ خاندان میں کہیں کسی کی ناساز طبیعت کی افواہ بھی سن لیں تو عین ناشتہ یا کھانے کے وقت بمع اہل و عیال موقع پر پہنچ جائیں اور اپنے خطرناک مشوروں، آزمودہ ناکام نسخوں اور ٹوٹکوں سے مریض کو ہلکان کر ڈالیں۔

شاید ان دنوں ہمارے بھی ستارے گردش میں تھے۔ ہمارے جگری دوستی رفیق جاگرانی اصرا کرنے لگے کہ ہم اپنا مکمل چیک اپ (طبی معائنہ) کرالیں۔ ہمارا پس و پیش دیکھ کر کہنے لگے۔
میاں چالیس سال کی عمر کے بعد گھنٹی بج جاتی ہے، چیک اپ کراتے رہنا چاہیے، نامعلوم کون کون سے مہلک امراض جڑ پکڑ رہے ہوں اور کسی دن بھی، اس کے ساتھ ہی انہوں نے شرارتاً پرائیویٹ وارڈ میں قیام و طعام کی ایسی تصویر کھینچی کہ ہم نے حامی بھرلی اور پھر ایک سہانی شام ہسپتال میں داخل ہوگئے۔

Ap hotey to

 میں ایک قریبی سکول میں ٹیچر ہوں۔ یہ علاقے کا بڑا سکول ہے ۔ ابھی میری جاب کو ایک مہینہ ہی ہوا ہے۔ آج  ہفتہ تھا لیکن مجھے سکول جانا تھا ۔ پیرنٹس ٹیچرز میٹنگ تھی۔ یعنی  والدین سے اساتذہ کی ملاقات ۔ مجھے چونکہ آئے ہوئے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے تو میری ساتھی ٹیچر مس راحیلہ نے مجھے زیادہ  دیر خاموش رہنے کا کہا ۔

’’تم بس دیکھو، observe کرو کہ میں پیرنٹس سے کیسے بات کرتی ہوں۔‘‘ وہ ذرا  گھبرائی ہوئی تھی لیکن میں نے سوچا میرا وہم ہے۔

خیر! نو بجتے ہی والدین کے آنے کا  سلسلہ شروع ہو گیا۔

 میں حسب معمول پارک میں اپنی مخصوص بینچ پر بیٹھا کتاب میں محو مطالعہ تھا جو کہ میرا تقریباً روز کا معمول تھا۔ شام کے وقت کچھ دیر فراغت کے لمحات میں پارک میں ہی گزارتا۔ مجھے یہاں کی ہر چیز بھلی لگتی جیسے کھیلتے بچے ، درخت ، پرندے ، پھول اور کھلی فضا!

میں بچپن ہی سے کتب بینی کا بے حد شوقین رہا ہوں ۔ جیسے جیسے عمر ڈھلتی گئی شوق میں اضافہ ہوتا گیا۔ شروع سے میری اک عادت تھی۔ میں زیادہ تر کتب کا مطالعہ پارک میں کرنا پسند کرتا۔ قدرتی حسن مجھے بہت بھاتا اور میں اسکا دلدادہ تھا۔آج بھی میں معمول کے مطابق اپنی نشست پر بیٹھا کتاب ہاتھ میں لئے ورق گردانی میں مصروف تھا۔ ساتھ بسکٹ کے بھی مزے لیتا اور چائے بھی نوش جاں کررہا تھا ۔بسکٹ کھانے کے بعد ریپر اور ڈسپوز ایبل گلاس وہیں گھاس پر پھینک دیئے ۔ ایک لمحے کے لیے میری ضمیر نے مجھے ڈانٹا لیکن میں نے ہمیشہ کی طرح نظر انداز کر دیا۔ حالانکہ کوڑا دان قریب تھا مگر بھئی اتنی مشقت کون اٹھائے۔اور پھر یہ تو میری برسوں کی عادت تھی۔

یہ درست ہے کہ میاں صاحب سعودیہ واپس چلے گئے تھے اور وہیں عید منائی پر اس وقت تو یہ دل ناداں کسی اور کے انتظار میں تڑپ رہا ہے۔ یقین مانیے اتنا اچھا پیکیج دیا تھا کام والی کو پھر بھی عین وقت پہ دغا دےگئی۔ دل دکھ سے بھر گیا اورذہن پہ فکر چھا نے لگی کہ اب کیا اور کیسے ہو گا۔  دراصل عید الاضحی کے دن ہوتے ہی بے پناہ مصروفیت کے ہیں۔  ایسے میں اگر کام والی ماسی ساتھ چھوڑ جائے تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ اتنے ناز اٹھائے پر نجانے کونسی بات اسکی طبع نازک پہ گراں گزری کہ وہ کچھ کہے سنے بنا چل دی۔

والدہ محترمہ ( ساس صاحبہ ) کی طبیعت اچھی نہ تھی۔ اب کی دفعہ ہم نے عید پہ انہیں سب سے پہلے تیار کروا کے بستر پہ بٹھا دیا کہ بس آپ فکر نہ کریں۔ سب سنبھل جائے گا انشاءاللہ۔ سب سے پہلے زردہ چاول بنا نے تھے۔ ابھی نماز عید بھی ادا ہونا باقی تھی۔ ہم برتن ہاتھ میں لئے چاولوں کی بوری کے پاس جا پہنچے ۔اسے کھولا تو دل دھک سے رہ گیا نیم کے پتے منہ چڑا رہے تھے۔ چاول صاف کرنے والے تھے۔اس سے پہلے تو امی نے ہمیشہ ہی ماسی سے صاف کروا کے رکھے ہوتے تھے۔نکال کے صاف کئے۔ کافی وقت لگ گیا۔ بچے بڑے ہو گئے ہیں ماشاء اللہ خود سے تیار ہو گئے۔ اب ہم کچن میں گھسے زردہ بنا رہے تھے ۔

Ab men khush hu

بہت پرانے زمانے کی بات ہے شہر خلیل میں ایک غریب خیاط (درزی) عمر رہا کرتا تھا۔ عمر بہت تنگ دستی  کے دن گزار رہا تھا۔ پھر بھی وہ اپنی قسمت سے شاکی نہیں تھا۔ اس کی جھونپڑی بہت پرانی اور خستہ ہوچکی تھی۔ مسلسل تنگ دستی اور غربت نے اس کے مزاج پر برا اثر ڈالا اور وہ چڑچڑا ہوگیا۔ ذرا ذرا سی بات پر وہ اس طرح بھڑک اٹھتا، جیسے کوئی شخص بارود کے ڈھیر میں دیا سلائی لگادے۔ عمر کی بیوی کا انتقال ہوچکا تھا۔ جھونپڑی میں وہ خود، اس کی بیٹی عارفہ اور نواسیاں مل جل کر رہتے تھے۔ کبھی کبھی عمر کو اپنی ننھی منی نواسیوں کا شور بھی ناگوار گزرتا اور نواسیوں کو غصے کے عالم میں برا بھلا کہہ ڈالتا۔ تب اس کی معصوم اور بھولی بھالی نواسیاں بری طرح سہم کر خاموشی ہوجایا کرتیں ان کے مسکراتے چہرے سنجیدہ ہوجاتے۔

ایک دن کی بات ہے، بچے حسب معمول ناشتے سے فارغ ہو کر کھیل رہے تھے، عمر ان بچوں کے شور و غل کی آواز سے بری طرح تلملا رہا تھا۔