butterfly

اس Category میں ننھے منے کم سن بچوں کی کہانیاں شامل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی معصوم سی باتوں کے ذریعے زندگی کے بڑے بڑے سبق سیکھنے ہوں تو یہ کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

میرےسوہنے موہنے بچو! آم کے درخت پر بہت ساری چڑیاں رہتی تھیں۔ ان میں ایک نیلے پروں والی چڑیا تھی جس کا نام نیلی تھا۔

نیلی آج صبح صبح اٹھ گئی اور بولی۔

’’مجھے ناشتے میں چاول کھانے ہیں۔‘‘

امی چڑیا نے سمجھایا ۔’’پیاری نیلی! جو بھی ہمیں مل جائے اس پر اللہ کا شکر کرنا چاہیے۔ منہ نہیں بنانا چاہیے۔‘‘

نیلی کو کبھی سمجھ نہ آتی۔کبھی امی جان سبزی پکاتیں اور کبھی روٹی کے مزیدار ٹکڑے اٹھا لاتیں جو سب  ہی شوق سے کھاتے لیکن نیلی تو بس چاول ہی پسند  تھے۔ وہ اکثر کھانے کی میز پرناراض ہو جاتی ۔منہ بنا کر الگ بیٹھ جاتی۔ اس کے سب بہن بھائی مزے سے کھانا کھاتے اور اپنے کمروں میں جا کر سو جاتے ۔

ایک دن نیلی سو کر اٹھی تو اس نے دیکھا ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔

میرے سوہنے موہنے بچو! سردیاں آنے والی تھیں۔ روزی جو ایک چھوٹی سی بھورے رنگ کی چیونٹی تھی،جلدی جلدی خوراک اکھٹی کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ آج بھی وہ سامنے والی ساری جھاڑیاں دیکھ کر آئی تھی لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا سوائے مٹی اور چھوٹے چھوٹے پتھروں کے۔ پتے سوکھ چکے تھے اور وہ روزی کے کام نہیں آسکتے تھے۔

ایک دن جنگل کے ساتھ والی سڑک پر ایک ٹرک  آ رکا۔ اس پر بہت ساری بوریاں رکھی ہوئی تھیں۔ روزی بھی ٹرک کی آواز سن کر ایک پودے کی اوٹ میں کھڑی ہوئی تھی۔ ٹرک ڈرائیور شاید آرام کر رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے ٹرک سٹارٹ کیا۔

’’گھوں گھوں ۔۔ گھوں ں ں‘‘

ٹرک ایک جھٹکے سے آگے بڑھا تو ایک بوری نیچے آگری۔ روزی نے چیخ کر ڈرائیور کو بتانے کی کوشش کی۔

’’ارے بھائی صاحب! آپ کی ایک بوری گر گئی ہے۔ اسے اٹھا لیں۔ ارے رکیں تو سہی!‘‘

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک پیاری سی بطخ ، نیناکی جس کو دوسروں کے کھلونے بہت اچھے لگتے تھے۔ اس کی امی جان نے اس کو بہت سارے کھلونے لے کر دیے ہوئے تھے جیسے سرخ گیند، گلابی دم والی مچھلیاں اور تیرنے والی چھوٹی کشتی۔ لیکن کیا کریں! نینا کو تو بس دوسری بطخوں کے کھلونے پسند آتے تھے۔

ایک دن جب ساری بطخیں کھیل کر گھر جانے لگیں تو نینا نے کہا۔

 میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہےبوگن بیل میں بنے ہوئے ایک پیارے سے گھر کی جس میں بہت ساری شہد کی مکھیاں اور ایک ملکہ رہتی تھی۔اس گھر میں بہت سارے کمرے تھے۔ سب کمروں میں شہد بھرا ہوا تھا۔ گھرکے باہر دو گارڈ کھڑے تھے جو ہر مکھی کا لایا ہوا رس چیک کرتے تھے۔ اگر وہ رس ٹھیک ہوتا تو وہ اسے کمروں میں رکھوا دیتے ۔

میرے بچو! ایک ننھی منی سی مکھی سیمی کو نیلے رنگ کے پھولوں کے پاس جانا بہت اچھا لگتا تھا۔ ایک دن سیمی نیلے پھولوں کے پاس گئی اور ان سے کہا۔

’’پیارے پھول! میں آگئی ہوں۔ کیا میں آپ کا رس لے سکتی ہوں؟‘‘


میرے سوہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک نارنجی رنگ کے چوزےچوں چوں کی جس کو چھلی کے دانے بہت پسند تھے۔ جب مرغی ماما روز صبح اس کو اٹھاتیں تو وہ پوچھتا۔

’’کیا میں آج چھلی کا دانہ کھا سکتا ہوں؟‘‘

مرغی ماما کہتیں۔

’’نہیں پیارے بیٹے! آپ کاحلق چھوٹا ہے۔ چھلی کا دانہ گلے میں پھنس جائےگا۔‘‘

 میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے منے  بھالو ٹیڈی کی جس کو بہت ٹھنڈ لگتی تھی۔ ٹیڈی کا گھر ایک بڑے سے  درخت کے تنے میں بنا ہوا تھا۔  اس میں دو خوابگاہیں، ایک بیٹھک اور صحن تھا۔ بیٹھک میں ایک بڑا سا آتش دان تھا جس میں امی جان نے بہت ساری لکڑیاں رکھ دی تھیں۔ جب رات ہوتی تو ان لکڑیوں میں آگ لگا دی جاتی۔ اس آگ کی تپش سے سارا گھر گرم ہو جاتا۔جب برف پڑتی تو ٹیڈی آگ کے پاس بیٹھ جاتا اور اپنے ہاتھ سامنے کر دیتا۔ جب اس کے ہاتھ گرم ہوتے تو اسے بہت مزہ آتا۔

اس دن موسم صاف تھا۔ ٹیڈی  بھالو نے ناشتہ کرتے کرتے کھڑکی میں سے باہر دیکھا۔

’’امی ! کیا آج میں اپنے دوست شانی کے گھر چلا جاؤں؟‘‘ ٹیڈی نے منہ میں نوالہ رکھے رکھے پوچھاتواس کا منہ اور پھول گیا۔


 arrownew e0میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ان چڑیوں کی جو آم کے درخت پر رہا کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک چڑیا کا نام بنٹی تھا۔ بنٹی ایک بار دانہ چگنے ساتھ والے گاؤں میں گئی تو ا س نے دیکھا بہت ساری سفید رنگ کی چڑیاں دیوار پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ آپس میں کہ رہی تھیں۔

’’اب ہمیں کہاں جانا چاہیے؟‘‘

’’ہمم! ایسا کرتے ہیں آموں والے جنگل کے بادشاہ شیر سے پوچھتے ہیں۔‘‘

’’ہو سکتا ہے ہمیں وہاں رہنے کے لیے درخت مل جائیں۔‘‘

سفید چڑیاں پریشان نظر آتی تھیں۔ بنٹی نے ان کی باتیں سنیں تو ان سے کہنے لگی۔