butterfly

اس Category میں ننھے منے کم سن بچوں کی کہانیاں شامل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی معصوم سی باتوں کے ذریعے زندگی کے بڑے بڑے سبق سیکھنے ہوں تو یہ کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

! پھل کیوں دیا

امی   سبزی  بنا رہی تھیں  اورننھی خولہ  ان کے  پاس بیٹھی تھی  ۔باقی بہن بھائی سکول گئے ہوئے  تھے ۔

’’ خولہ   بیٹا! آپ مجھے پہلا کلمہ سنائیں ۔‘‘ امی نے کہا۔

 ننھی منی خولہ نے توتلی زبان میں   امی کو پہلا کلمہ سنایا   تو انہوں   نے خوش ہو کر  خولہ کو شاباش  دی ۔ تھوڑی دیر بعد  امی کچن  میں گئیں  تو خولہ بھی ساتھ  آگئی اور کہنے  لگی  ۔

’’ امی آپ مجھے ٹافی دیں  مجھے  بھوک لگی ہے ۔‘‘

  امی نے اسے سمجھایا  کہ

ننھی وانیہ اور پنک مانو

میرے سوہنے موہنے بچو! ننھی منی وانیہ  اپنی تین پہیوں والی سائیکل پر سارے گھر میں گھوم رہی تھیں۔ ’’چیز والا! چیز والا!‘‘ ابھی کل ہی  ماما جان نے گلی میں سے گزرتے ہوئے ایک چھابڑی والے سے کچھ سامان لیا تھا۔بس تب سے ہماری ننھی منی وانیہ ’’چیز والے‘‘ کا روپ دھار چکی تھیں۔ 

ان کی سائیکل پر لگی سرخ ٹوکری مختلف چیزوں سے بھری ہوئی تھی۔ رنگ برنگے بلاکس، ننھی سی سرخ  ریل  گاڑی،  چھوٹی چھوٹی پلیٹیں اورکپ،دو سنہری بالوں والی گڑیاں، سبز رنگ کا فوجی ٹینک اورایک نسواری رنگ کا شیر۔

’’چیز والا ! چیز والا!‘‘ یہ کہتے ہوئے ہماری ننھی منی وانیہ سارے کمروں میں باری باری جاتیں۔ ہر ایک 

چاٹ مصالحہ

عید گزر چکی تھی۔ بہت سارے کپڑے اکھٹے ہوچکے تھے۔ ماما جان نے سوچا آج مشین لگا لی جائے۔ چنانچہ انہوں نے پورچ میں جا کر میلےکپڑوں کی ڈھیریاں سی بنائیں ۔ ساتھ ہی مشین میں پانی بھی ڈالنے لگیں۔

یہ ننھے عفی میاں کے لیے سنہری موقع تھا۔ بس اب کیا تھا! وہ بار بار کچن میں جاتے ۔ چھوٹی سی نیلی کرسی شیلف کے ساتھ رکھتے اور مصالحوں کے ڈبے کے ساتھ پڑا ہوا چاٹ مصالحے کا ڈبا اٹھا لیتے

بی مانو کی سیر

میرے سوہنے موہنے بچو! بی مانو جب سے اس گھر میں رہنے آئی تھیں ان کے توعیش ہو گئے تھے۔ کبھی کوئی بچہ ان کے لیے گرم دودھ اور ڈبل روٹی لا رہا ہے۔ کبھی گھر کی آیا گوشت کے چھیچھڑے الگ کر کے ان کے آگے رہی ہیں۔ اور ان کے نرم گداز بستر کی تو کیا بات تھی!

یہ دراصل ایک چھوٹا سا گتے کا ڈبہ تھا جس کو گھر والوں نے بڑی خوبصورتی سے بی مانو کے گھر میں بدل دیا تھا۔ چھت کو سرخ رنگ کیا تھا ۔ اندرونی دیواریں سبز اوربیرونی دیواریں زرد رنگ کی تھیں۔ بستر کا رنگ سفید تھا اور کھانے کا پیالہ گلابی رنگ سے رنگا گیا تھا۔خود بی مانو بھی تو اتنی پیاری تھیں! نیلی آنکھیں ، گلابی کان اور پوری کی پوری سفیدملائم بالوں سے ڈھکی ہوئی۔  

! گائے والے شوز

صبح کا وقت تھا۔ رات کو بارش ہونے کی وجہ سے موسم بہت اچھا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ماما جان نے لاؤنج کی بڑی سی کھڑی سے پردہ ہٹا دیا۔ سارے گھر میں روشنی پھیل گئی۔ ننھی منی انجو آنکھیں ملتے ہوئے کمرے سے باہر آئی تو اس کی نظر سامنے والی سر سبز پہاڑی پر پڑی۔ ایک گائے بڑے مزے سے اونچی نیچی ڈھلوان پر چلی جارہی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ رک کر گھاس کھانے لگی۔ انجو کو لگا ابھی یہ گائے گر جائے گی۔ 

’’ماماجان!وہ دیکھیں! گائے تو گرنے لگی ہے۔ ‘‘ انجو نے تیزی سے کہا۔
ماما جان نے بھی کھڑکی سے باہر دیکھا تو مسکرا دیں۔
’’نہیں میری پیاری انجو! گائے گرنہیں

! آپا مہند ی لگائیں ناں

میرے سوہنے موہنے بچو! آج چاند رات تھی۔ ماما جان شیر خورمہ بنا رہی تھیں۔ آپا جان کے ذمے سب کے کپڑے استری کرنا تھے۔ بھیا ڈرائنگ روم کی سیٹنگ کروا رہے تھے۔ دادو اپنے تخت پر بیٹھیں بادام اور کھوپا کاٹ رہی تھیں۔ہماری  ننھی  منی فزا مہندی کی کون تھامے کبھی آپا کے پاس جاتیں، کبھی ماما جان کے پاس۔

ایک بار تو دادو سے ڈانٹ پڑ بھی گئی۔ ’’آئے ہائے! بہو! دیکھو بٹیا مہندی کی کون تھامے یہاں وہاں  گھوم رہی ہے۔ کپڑوں پر لگ گئی تو داغ نہ جائے گا۔‘‘

ماما جان نے ننھی منی فزا کے ہاتھ سے کون

ماما جان کیوں ہنسیں؟

’’احمر! کہاں ہو بیٹا؟‘‘ ماما جان نے آواز دی۔ اور ہمارے ننھے گول مٹول احمرمیاں الماری کا ایک پٹ کھولے کرسی رکھ کر کھڑے تھے۔ نیا سفید کڑکڑاتا کرتا، چھوٹی سی جالی دار ٹوپی ، سیاہ  چمکیلی واسکٹ اورننھی سی پشاوری چپل ۔  ماما  جان نے کل ہی الماری میں احمر میاں کی عید  کی چیزیں سنبھال کر رکھی  تھیں۔

اسی لیے آج صبح سےاحمر میاں کو چین نہیں آرہا تھا۔ جیسے ہی ماما جان افطاری بنانے کچن میں گئیں تو وہ کمرے میں چلے آئے ۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنی چھوٹی سی جامنی کرسی کو آہستہ آہستہ گھسیٹ کرالماری کے سامنے لا کھڑا کیا۔  پھر جوتے اتار کر اوپر چڑھے۔ الماری کا ہینڈل گھمایا  تو ہلکی سی چوں کے ساتھ ایک پٹ کھل گیا۔