butterfly

اس Category میں ننھے منے کم سن بچوں کی کہانیاں شامل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی معصوم سی باتوں کے ذریعے زندگی کے بڑے بڑے سبق سیکھنے ہوں تو یہ کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

میرے سوہنے موہنے بچو!  ایک تھی مرغی کُٹ کُٹ! اس کے دو بہت ہی پیارے بچے تھے۔ چینو اور مینو۔ یہ دونوں چوزے  سارا وقت کھیلتے رہتے اور دانہ کھاتے۔ ۔ ان کا گھر ایک جنگل میں تھا۔جنگل سے کچھ دور ایک  سڑک تھی  جو ابھی بن رہی تھی۔ بہت ساری گاڑیوں اور ٹرک کی آوازیں سن کر چینو اور مینو  کا بہت دل کرتا کہ وہ وہاں جا کر دیکھیں۔ سڑک کیسے بنتی ہے۔ لیکن کُٹ کُٹ مرغی نے انہیں  دور جانے سے منع کیا ہوا تھا۔

ایک بار کُٹ کُٹ مرغی کی طبیعت خراب ہو گئی۔ اس نے کل بی بطخ کی دعوت پر کچھ زیادہ کھالیا تھا۔ وہ  صبح اٹھتے ہی بندر میاں سے دوا لے آئی۔ چینو اورمینو ابھی سو رہے تھے۔ کُٹ کُٹ مرغی نے دوا لی تو اسے نیند آگئی۔ وہ بھی اپنے کمرے میں جا کر سو گئی۔

 

تھوڑی دیر بعد چینو مینو کی آنکھ کھلی ۔ گھر میں خاموشی تھی۔ چینو نے فریج کھول کر دیکھا۔ ماما نے ابھی کچھ نہیں پکایا تھا۔

 پیارے بچو! ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنگل میں دو خرگوش رہتے تھے۔ ایک کا نام سونو اور دوسرے کا نام مونو تھا۔سونو بڑا اور مونو چھوٹا تھا ۔ دونوں بھائی گول مٹول اور بہت پیارے تھے۔مونو کا رنگ سفید اور سرخ تھا۔اپنے رنگ کی وجہ سے سب سے الگ لگتا  تھا۔مونو دوسرے خرگوشوں کا مذاق اڑاتا تھا اور ان کو تنگ بھی کرتا تھا۔ 

بہت دفعہ  سونو نے مونو کو سمجھایا کہ وہ دوسروں کو تنگ نہ کیا  کرے ۔تمہاری وجہ سے دوسرے جانوراداس ہو جاتے ہیں مگر سونو کہاں اس کی بات سنتا تھا ۔ وہ بس شرارتوں میں لگا رہتا۔ کبھی کسی کی گاجر کھا جاتا کبھی کے جوتے چھپا دیتا۔ کئی بار وہ بند ر انکل کے کیلے چھپا دیتا تھا۔ بندر انکل اسی لیے مونو سے ناراض تھے۔  

مونو کے بالکل الٹ،  سونو  بہت اچھا تھا۔ وہ دوسروں کا خیال رکھتا تھا اور کبھی کسی کو تنگ نہیں کرتا تھا۔  اس لیے جنگل کے سارے جانور اسکے دوست تھے۔

 میرے سوہنے موہنے بچو! ایک تھا چوہا جس کا نام تھا میلو۔ اسے کھانے کا بہت شوق تھا۔ میلو کے ماما بابا جتنا کھانا لاتے وہ سب کھا جاتا۔ فریج میں بھی کچھ نہ چھوڑتا تھا۔ ایک بار میلو کا دوست سیلو اس سے ملنے آیا۔ پہلے تو انہوں نے کچھ دیر باتیں کیں پھر میلو اٹھا اور فریج میں سے کیک کے ٹکڑے لے آیا۔ کیک تو سیلو  اور میلو دونوں کا ہی پسندیدہ تھا۔ سیلو نے کیک کھاتے ہوئے دیکھا۔ میلو دھیان سے نہیں کھا رہا تھا۔ وہ کھانے کے ساتھ ساتھ کیک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ادھر ادھر گرا رہا تھا۔

’’میلو  ! دیکھ کر کھاؤ۔ تم نے کافی سارا کیک نیچے بھی گرا دیا ہے۔‘‘ سیلو نے کہا ہمارے ننھے چوہے میلو نے کرسی سے نیچے دیکھا۔ واقعی کیک کے بہت سارے ذرے بکھرے ہوئے تھے۔

 چھٹی کا دن ہے۔ انجو کے باباجان صبح سے مالی کے ساتھ مصروف ہیں۔ پہلے وہ ڈھیر سارے  بیج لے کر آئے ہیں۔ اب مالی کے ساتھ پودوں کی گوڈی  کر رہے ہیں۔

انجو سو کر اٹھی  تو کیاری سے آوازیں آرہی تھیں۔

’’مالی بابا آئے ہیں!‘‘ انجو نے نعرہ مارا اور باہر بھاگنے لگیں۔

’’ہائے بہو! اتنی ٹھنڈ اور انجو بٹیا جوتے کے بغیر۔۔‘‘ دادو چلائیں۔ ان کا جملہ پورا سننے بغیر ماما جان نے انجو کو پکڑ کر گود میں اٹھا لیا جو دروازے کے پاس پہنچ چکی تھیں۔ خیر! ماما جان نے ان کا منہ ہاتھ دھلوایا۔ نئے صاف کپڑے پہنائے اور شہد ملا دلیا کھا کر ہماری انجو کیاری میں پہنچ گئیں۔

’’واہ ہ ہ!‘‘ انجو کے منہ سے نکلا۔ کیاری بالکل نئی لگ رہی تھی۔ یہاں سے لے کر وہا ں تک رنگ برنگے پھولوں والے پودے لگے ہوئے تھے۔

’’بابا جان! یہ کون سا پھول ہے؟‘‘ انجو نے  ایک پودے کی جانب اشارہ کیا جہاں ایک بڑا سا سرخ رنگ کا پھول لگا ہوا تھا۔

’’میری بٹیا! یہ گلاب ہے۔ ہم نے دو رنگوں کے گلاب لگائے ہیں۔ ایک یہ سرخ اور دوسرا یہ اس کے ساتھ گلابی رنگ کا۔ ‘‘ بابا جان نے پیار سے ان کی ٹوپی کا پھندنا ہلایا۔

 میرے سو ہنے موہنے بچو! آفی اس دن جب وہ فرش  پر بیٹھا کھیل رہا تھاجب ایک چیونٹی ، جس کا نام بینو تھا، اس کے پاس سے گزری۔ آفی نے جلدی سے اس کے آگے ہاتھ کی دیوار سی بنا دی۔بینو رک گئی۔ اس نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا۔ آفی نے چھوٹا سا ہاتھ آگے رکھ کر اس کا راستہ بند کر دیا تھا۔

’’ اوہ اب کیا کروں؟ آفی بھائی! مجھے جانے دو۔ میرے بابا میرا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘بینو کہ رہی تھی۔ لیکن آفی نے ہاتھ نہ ہٹایا۔اس کو مزہ آرہا تھا۔  جب وہ راستہ ڈھونڈ کر تھک گئی تو آفی  نے ہاتھ ہٹا لیا۔

جب چھوٹی سی چیونٹی بینو اپنے گھر پہنچی تو پہلے تو اس نے ڈھیر سارا پانی پیا کیونکہ اسے بہت پیاس لگ گئی تھی۔ پھر اس نے اپنے بابا کو بتایا کہ کیسے آفی نے اسے تنگ کیا اور کافی دیر تک اسے جانے نہیں دیا۔

میرے سوہنے  موہنےبچو! ایک تھی چڑیا! بالکل چھوٹی سی! نام تھا اس کا جامنی! بھلاکیوں؟ وہ اس لیے کہ اس کے چھوٹے چھوٹے پر جامنی رنگ کے تھے۔ ویسے تو جامنی چڑیا بہت اچھی تھی لیکن اس کی ایک عادت اچھی نہیں تھی۔ وہ یہ کہ جامنی چڑیا سب سے الگ ہو کر اپنا کھانا کھاتی تھی۔ درخت کے رہنے والی باقی چڑیاں تو مل جل کر کھاتی تھیں۔ وہ سب اکھٹی صبح صبح اٹھ جاتیں، کھلے آسمان کے نیچے اپنے پر پھیلا کر خوب خوب اڑتیں۔ پھر ادھر ادھر یہاں وہاں کھانے پینے کی چیزیں تلاش کرتیں۔

جامنی چڑیا کی عادت تو یہ نہ تھی۔ وہ بس اکیلے ہی نکل جاتی اور کسی دیوار کے پاس سے چاول کے دانے اٹھا لاتی۔ پھر اپنے گھونسلے میں رکھ کر ان کو صاف کرتی اور کھا لیتی۔ اس نے کبھی یہ نہ سوچا تھا کہ کچھ دانے اپنی پڑوسن چڑیا کو دے دوں۔ یا کوے بھائی سے پوچھ لوں کہ آج اس کو کھانا ملا ہے یا نہیں۔ وہ تو بس اپنے بارے میں سوچتی تھی۔

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھی سی گٹھلی کی جس کا نام ایمو تھا۔ یہ آم کی گٹھلی تھی۔ ایمو  کو افضل بابا نے سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ جب شام ہوئی تو افضل بابا اپنے گھر پہنچے۔ ان کے گھر کے باہر کیاری تھی۔ وہاں پہلے سے امرود اور لوکاٹ کے درخت لگے ہوئے تھے۔ ایمو کو افضل بابا نے لوکاٹ سے کچھ ہٹ کر مٹی میں دبادیا۔

میرے بچو! ایمو جب مٹی کے اندر پہنچی تو اس کو بہت ساری نئی سہلیاں ملیں۔ یہ لوکاٹ اور امرود کی جڑیں تھیں۔ گلاب کے پودے نے بھی ایمو کو خوش آمدید کہا۔ موتیا البتہ کچھ ناراض تھا ۔ کیونکہ اس کو لگتاتھا اب ایمو کی جڑیں اس کی نازک جڑوں کو خراب کر دیں گی۔