butterfly

اس Category میں ننھے منے کم سن بچوں کی کہانیاں شامل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی معصوم سی باتوں کے ذریعے زندگی کے بڑے بڑے سبق سیکھنے ہوں تو یہ کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

میرے سوہنے موہنے بچو!  پچھلے ہفتے ہم نے آپ کو بتایا تھا  کہ ہماری ننھی منی انجو چڑیا گھر کی سیر کر رہی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں بھنے ہوئے چنوں کا ایک چھوٹا سا تھیلا تھا جو ان کو بھیا نے لا کر دیا تھا۔ یہ چنے انہوں نے بندروں کو کھلانے کے لیے رکھے ہوئے تھے۔

سیر کرتے ہوئے کئی جانوروں کےپنجرے گزر چکے تھے لیکن ہماری انجو کو بندر والے پنجرے کا بہت انتظار تھا۔ آخر کار دور ہی سے انہیں بندر نظر آگئے۔ وہ پنجرے کی سلاخوں پر چڑھے ہوئے تھے۔ کچھ بندر چھلانگیں لگا رہے تھے۔ دو بندر کیلے کھانے میں مصروف تھے جو انہیں ایک بچے نے دیے تھے۔

 

arrownew e0 میرے سوہنے موہنے بچو! کیسے ہیں آپ! آپ کو پتہ ہے پچھلے ہفتے انجو کے باباجان سب کو چڑیا گھر لے کر گئے تھے۔ وہاں یہ بڑے بڑے جانور تھے۔ نہیں نہیں! آپ ڈریں نہیں! وہ جانور بچوں کو کچھ نہیں کہتے۔  بلکہ وہ بچوں سے پیار کرتے ہیں۔

ہوا یوں کہ اتوار کی صبح ناشتے کے بعد بابا جان نے کہا۔

’’بچو! تیار ہو جاؤ۔ آج ہم چڑیا گھر کی سیر کو جائیں گے۔‘‘

 میرے  سوہنے موہنے بچو!  سردیاں  آ گئی ہیں۔ کیا آپ نے بھی ننھی منی  انجو کی طرح فر والا کوٹ، ننھامفلر ،لمبی جرابیں اور شوز  پہن رکھے ہیں؟  اللہ کرے آپ میں نہ ہو لیکن ہماری  انجو میں تو ایک خراب عادت ہے۔ وہ یہ کہ انہیں سردیوں میں بند جوتے پہننا بالکل پسند نہیں۔ ماما جان ڈانٹ ڈپٹ کر  پہنا دیں تو ٹھیک ۔ ورنہ اکثر انجو ننگے پاؤں گھوم رہی ہوتی ہیں۔ ان کی  کئی ایک جرابیں شوز نہ پہننے کی وجہ سے پھٹ جاتی ہیں۔

ایک دن ایسا ہی ہوا۔ ماما جان نے صبح صبح  آپا جان اور بھیا کو سکول بھیجا۔ پھر ناشتے کے بعد بابا بھی آفس چلے گئے۔ دادو اشراق کی نماز پڑھ کر سو رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد انجو اٹھ گئیں تو ما ما جان نے ان کا منہ ہاتھ دھلایا اور انہیں تیار کر دیا۔

 

 story book icon  Pdf icon

 

 

 

 

میرے سوہنے موہنے بچو! انجو کی خالہ ، سلیمہ کی شادی آگئی  ہے۔ انجو بہت خوش ہیں۔ کب سے اپنی ماما جان سے ضد کر رہی ہیں کہ انہیں چوڑیاں مہندی اور لہنگا دلایا جائے۔

آخر ایک اتوار انجو کی ماما جان اور بابا جان نے پروگرام بنایا کہ وہ  انجو کو لے کر پہلے شاپنگ کرنے جائیں گے پھر وہاں سے پارک !  انجو کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میرے بچو! ہماری انجو کو پارک کے جھولوں سے زیادہ نئے کپڑوں کی خوشی ہو رہی تھی۔

خیر اتوار کا دن بھی آگیا۔ ماما جان نے انجو کو تیار کیا، دو پونیاں بنائیں اور سرخ چپل پہنا کر گاڑی میں بٹھا دیا۔ پھر وہ بابا جان کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھ گئیں ۔ بابا جان نے گاڑی سٹارٹ کی تو وہ نہ ہو سکی۔ پتہ لگا کہ پٹرول کی ٹینکی لیک ہو چکی تھی۔ اب کیا کریں؟سب سے زیادہ پریشانی انجو کو تھی۔ ان کا لہنگا اور چوڑیاں بہت دور نظر آنے لگی تھیں۔ ماما جان کے تیسری بار بلانے پر وہ آنکھوں میں آنسو لیے گاڑی سے نیچے اتر آئیں۔

    میرے سوہنے موہنے بچو! سردیاں شروع ہو چکی ہیں اور ہمیشہ کی طرح ہماری  انجو کی ناک بری طرح بہ رہی ہے۔ آج ماما جان نے انہیں پسندیدہ نوڈلز کھلائے۔ ابلا ہوا انڈا کھلایا ۔ لیکن انجو کا زکام ذرہ برابر ٹھیک نہ ہوا۔ اور تو اور دادو جان  ادرک اور دار چینی کا قہوہ بھی  پلا چکی تھیں۔

شام کو بابا جان آفس سے آئے۔انجو دوڑتی ہوئی ان کے پاس چلی آئیں۔ ان کی چھوٹی سی ناک گلابی ہو رہی تھی۔ 

’’انجو بیٹی کا کیا حال ہے؟‘‘ انہوں نے انجو کو گود میں بٹھایا اور پیار سے پوچھا۔

 میرے سوہنے موہنے بچو! سردیاں آنے والی تھیں۔ ملکہ چاہتی تھی سب چیونٹیاں جلدی جلدی کام ختم کر لیں۔ نم نم اور تم تم دونوں بہن بھائی تھے۔ نم نم تو سارا دن خوراک اکھٹی کرتی رہتی جبکہ تم تم  چیونٹا سستی سے اپنے بستر پر پڑ ا رہتا۔ اس نے کبھی کوئی کام کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

’’تم تم!  تھوڑی سی حرکت کر لیا کرو۔ دیکھو تو! میں نے یہ ساتھ والا گودام کیسے بھر دیا ہے۔ ‘‘ نم نم نے بھائی کو ڈانٹا اور گودام کی طرف اشارہ کیا۔وہ چھوٹا سا ایک کمرہ تھا جو چینی کے ذروں، چاول کے دانوں اور ڈبل روٹی کے ننھے ٹکڑوں سے بھر چکا تھا۔

 

 story book icon  Pdf icon

 

 

 



میرے سوہنے موہنے بچو! ایک گھنے جنگل میں بہت ہی خوبصورت تالاب کے بیچ دو سفید بطخیں رہا کرتی تھیں۔ان کے ساتھ ہی ایک کالی بطخ، جونُو بھی رہتی تھی جس کا سفید بطخیں بہت مذاق اڑاتی تھیں۔ کبھی اسے کالو کہ کر پکارتیں تو کبھی کلّو۔ جونو نے کبھی سفید بطخوں کے مذاق کا برا نہیں مانا تھا۔ وہ الٹا انہیں سمجھاتی رہتی کہ وہ خود سے کالی تھوڑی بنی ہے۔ یہ تو پیارے اللہ میاں نے سب کو بنایا ہے۔ کسی کو کالا کسی کو گورا۔ کسی کو چھوٹا کسی کو لمبا۔

میرے بچو! سفید بطخوں کا  کیا کریں کہ ان کو سمجھ ہی نہیں آتی تھی۔ حتیٰ کہ ان کی شرارتوں سے تو جنگل کے باقی جانور بھی محفوظ نہیں تھے۔ جب ہاتھی تالاب سے پانی پینے آتے تو وہ زور زور سے چھینٹے اڑانے لگتیں۔ زرافے میاں ایک تو بڑی مشکل سے پانی پینے کے لیے اپنے آپ کو جھکاتے ، بطخیں ان کی لمبی گردن بھی ٹھنڈے پانی سے بھگو دیتیں۔ کبھی سفید بطخیں کووں اور چیلوں کو تالاب پر آنے ہی نہ دیتیں تو کبھی بھالو میاں کی بھوری رنگت کا مذاق اڑانے لگتیں۔