butterfly

اس Category میں ننھے منے کم سن بچوں کی کہانیاں شامل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی معصوم سی باتوں کے ذریعے زندگی کے بڑے بڑے سبق سیکھنے ہوں تو یہ کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

انجو کے ناخن

میرے سوہنے موہنے بچو! جمعہ کا دن تھا اور ننھی انجو ناخن کٹوانے سے یکسر انکاری تھی۔ دادی اماں نے سوہن حلوے کا لالچ دیا، ابا میاں نے میلے میں جھولے دلوانے کا کہا اور اماں ! اماں تو کب سے کبھی پیار اور کبھی ڈانٹ کر اسے سمجھا رہی تھیں لیکن انجو ماننے کو تیار کب تھی۔ اس کا تو بس ایک ہی مطالبہ تھا۔

’’پہلے مانو بلی کے بھی ناخن کاٹیں۔ پھر میں کٹواؤں گی۔ ‘‘ پہلے پہل تو سب اس کی بات سن کر ہنس پڑتے۔ پھر  بھیا نے کہا۔

پنکی کا کھانا

میرے سوہنے موہنے بچو! ایک تھی بے حد خوبصورت سی  مچھلی جسے سب پنکی کہ کر پکارتے تھے۔پنکی اپنی ماما جان اور بہت ساری سہیلیوں کے ساتھ ، نیلے پتھروں والے  سمندر میں رہا کرتی تھی۔

 ایک دن  جب اس کی ماما جان اس کے لیے ننھے منے کیچوے لے کر آئیں تو اس کا منہ بن گیا۔

’’نہیں ! میں یہ نہیں کھاؤں گی۔یہ گندے سے سیاہ کیچوے کھا کھا کر میں  تنگ آگئی ہوں۔ بس مجھے کچھ اور کھانا ہے۔ ‘‘

’’بیٹا! اچھے بچے کھانے کو برا نہیں کہتے۔اور جو بھی کھانا سامنے آئے اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ‘‘ بڑی مچھلی نے کیچووں کو ایک بڑی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہا۔

مینو میمنا

میرے  پیارے بچو! نیلا طوطا اپنے خوبصورت  پروں کی وجہ سے پورے جنگل میں مشہور تھا۔ کیا چرند پرند کیا جانور سبھی اس سے پیار کرتے تھے۔

ایک دن نیلا طوطا سیر کرتے کرتے گاؤں کی جانب نکل گیا۔ وہ نیچی اڑان اڑ رہا تھا کہ اسے اچانک ایک طوطےکی آوازسنائی دی۔ نیلے طوطے نے نیچے اتر کر دیکھا تو ایک سبز طوطا پنجرے میں بند مزے مزے سے چوری کھا رہا تھا اور ساتھ ساتھ ٹیں ٹیں بھی کرتا جارہا تھا۔

واہ واہ اس طوطے کے تو مزے ہیں۔ نیلے طوطے نے سوچا اور اڑ کر پنجرے کے قریب دیوا ر پر بیٹھ گیا۔

’’ارے پیارے دوست تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘ سبز طوطے نے اسے دیکھتے ہی خوشدلی سے پوچھا۔

شرارتی کِن کِن

سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک بے حد شرارتی کوے کی  جو برگد کے ایک درخت پربہت نفاست سے بنے ہوئے گھونسلے میں اپنی بڑی بہن کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ اس کا نام کِن کِن اور اس کی بہن کا نام سِن مِن تھا۔ کِن کِن اپنی سِن مِن آپی کے سمجھانے کے باوجود کبھی اپنی ہمسائی چڑیا بی کے بچوں کو تنگ کرنے لگتا  کبھی  فاختہ خالہ  کا گھونسلہ خراب کر دیتا۔ اور تو اور کِن کِن کی شرارتوں سے بندرمیاں اور بھالو انکل بھی بہت تنگ تھے۔ کیونکہ کِن کِن بند ر میاں کی بنائی ہوئی دوائیاں خراب کر دیتا تھا اور ایک دن اس نے بھالو انکل کے شہد کے دو مرتبان بھی گِرا دیےتھے۔

میرے پَر کہاں گئے؟

ننھی انجو نے جب سے دادی اماں سے پریوں والی کہانی سنی تھی تبھی سے ایک انوکھی ضد لگا رکھی تھی۔ وہ یہ کہ مجھے بھی پر لگا دیے جائیں کیونکہ میں نے چاند کی سفید پریوں سے ملنے جانا ہے۔ روز رات کو وہ اپنے بیڈ پر لیٹتی تو گول مول چمکتے چاند کو دیکھ کر مچلنے لگتی۔

’’میرے پر کہاں ہیں۔ میں نے چاند کی سفید پریوں سے ملنے جانا ہے۔ ‘‘

اماں نے بارہا سمجھایا ۔ ’’میری جان انجو! انسانوں کے پر نہیں ہوتے۔‘‘

مینو میمنا

میرے سوہنے موہنے بچو! سفید سفید ٹانگوں والا اور نہایت پیارا سا مینو میمنا ، فضلو چرواہا  کے گھر میں  رہتا تھا اور سبھی کی آنکھوں کا تارا تھا۔ اس کی ننھی ننھی شرارتوں سے سب گھر والے خوش ہوتے تھے۔ اس کی خوراک کا پورا پورا خیال رکھا جاتا اور ہر ایک کوشش کرتا کہ مینو کو اپنے ہاتھوں سے میوے اور چارہ کھلائے۔

ویسے تو مینو کو ہر کوئی اٹھائے پھرتا۔ اسے کھیت کھلیان کی سیریں بھی کروائی جاتیں اور تو اور فضلو چرواہا اسےاپنے دوستوں کے گھر بھی لے جاتا۔

لیکن   پیارے بچو!  میں آپ کو ایک  راز کی بات بتاؤں!  وہ یہ کہ ہمارے ننھے منے گلابی کانوں والے مینو   میمنے کو جنگل دیکھنے کا بہت شوق تھا۔

سرخ جوتے

پیارے بچو! ننھی  سیما کو اپنے سرخ جوتے بے حد پسند تھے۔ جب بھی کہیں جانے یا گھومنے کا پروگرام بنتا ننھی سیما جلدی جلدی تیار ہوتی اور سرخ جوتے پہن لیتی۔ماما جان نے ننھی سیما کا قریبی سکول میں داخلہ کروا دیا تھا۔

آج صبح گھر میں پیاری سی چہل پہل تھی۔ پیارے بچو! یہ اس لیے کہ آج ننھی سیما کا سکول میں پہلا دن تھا۔ کچن سے مزیدار سینڈوچز کی خوشبو آرہی تھی۔ آپا نے ننھی سیما کا چھوٹا سا یونیفارم پلک جھپکتے میں استری کر دیا۔ بھیا نے چھوٹے چھوٹے سیاہ سکول شوز چمکا دیے۔ جب سکول کی وین آنے میں کچھ ہی وقت رہ گیا