butterfly

اس Category میں ننھے منے کم سن بچوں کی کہانیاں شامل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی معصوم سی باتوں کے ذریعے زندگی کے بڑے بڑے سبق سیکھنے ہوں تو یہ کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

Meenu ny badam khaey

 میرے سوہنے موہنے بچو! یہ ہے انجوکی پیاری سی گڑیا!  پھولے پھولے سنہرے بال، نیلی گول گول آنکھیں، سرخ ہونٹ اور گلابی جالی دار فراک۔ اس کو ہلائیں تو رونے لگتی ہے اور اس کا ہاتھ اوپر کریں تو فیڈر مانگتی ہے۔ یہ سنہری گڑیا ہماری انجو کو بہت پسند ہے۔

ایک دن کیا ہوا کہ انجو کے پڑوس میں رہنے والی ننھی سہیلی نینو چلی آئی۔

’’انجو! کیا کر رہی ہو!‘‘

’’میں یہاں ہوں! گڑیا کے ساتھ!‘‘ انجو نے سٹور میں سے آواز لگائی۔

اصل میں وہ اپنے گڑیا کے لیے ایک مفلر کی تلاش میں تھیں ۔  انہوں نے اپنے گرم کپڑوں کی گٹھڑی پوری طرح کھول رکھی تھی لیکن مفلر تھا کہ مل ہی نہیں رہا تھا۔

Meenu ny badam khaey

اتوار کی صبح جب انجو کی آنکھ کھلی تووہ  اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھیں۔ حالانکہ انہیں اچھی طرح یاد تھا رات کو وہ کھیلتے کھیلتے بھیا کے بیڈ پر سو گئی تھیں۔ انہیں وہاں سے اپنے بستر پر کون لایا یہ تو ان کو یاد نہیں تھا! لیکن بہرحال ان کی نیند اچھی طرح پوری ہو چکی تھی۔اس لیے  انہوں نے اوڑھنے والی  نیلے پھولوں والی چادر ایک طرف کی اور بستر سے اتر گئیں۔

’’میں۔۔ میں میں۔۔‘‘ اچانک صحن کی طرف کھلنے والی کھڑکی سے ایک چھوٹی سی آوا ز آئی۔

’’ہائیں! میمنا!‘‘ ہماری ننھی منی انجو تو ننگے پاؤں صحن کی جانب بھاگیں۔ وہاں ایک کونے میں واقعی ایک ننھا منا گلابی کانوں والا پیارا سا میمنا کھڑا ہوا تھا۔ ساتھ ہی بھیا بیٹھے اس کو چارہ کھلا رہے تھے۔

مونو اور شونو

’’لو دیکھو! وہ پھر آرہا ہے۔ لگتا ہے آج تو یہ ہمیں گر ا کر ہی چھوڑے گا۔‘‘

’’چلو ایسا کرتے ہیں۔ پتوں میں اورزیادہ چھپ جاتے ہیں۔پھر ہم اسے نظر ہی نہیں آئیں گے۔‘‘

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ دو ننھے ننھے  سبزامرود تھے جو آپس میں چپکے چپکے باتیں کر رہے تھے۔ ان کے نام مونو اور شونو تھے۔

اتنے میں وہ شرارتی بچہ قریب آگیا۔ اس نے سکول بیگ ایک طرف رکھا اور امرود کی شاخوں کو زور زور سے ہلانے لگا۔

’’مونو! شاخوں کو پکا پکڑ لو۔ ‘‘ شونو نے چلا کر کہا۔ پتے زور زور سے ہل رہے تھے ۔ مونو اور شونو ہوا میں لہرا رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا اب گرے کہ تب گرے!

کچھ دیر کے بعد مونو اورشونو نے دیکھا ان کے تین بھائی نیچے گھاس پر جا گرے تھے۔ شرارتی بچہ اب مزے مزے لے کر انہیں کھانے میں مصروف تھا۔ یہ دیکھ کر مونو اور شونو کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

’’اف! کتنا ظالم ہے یہ! ‘‘ ان کےمنہ سے نکلا۔

انجو کا ’’پاکستان‘‘

میرے سوہنے موہنے بچو! یقیناً آپ نے چودہ اگست خوشی خوشی منائی ہو گی۔ ہرے جھنڈے جھنڈیوں سے گھر کو سجایا ہو گا۔ ہماری پیاری ننھی منی انجو نے بھی  بھیا اور آپا کے ساتھ مل کے ڈھیر ساری جھنڈیاں لگائیں۔

ویسے تو چودہ اگست گزر چکا ہے ۔  ماما جان نے سب کی سب جھنڈیاں احتیاط سے اتار کر محفوظ کر لی ہیں لیکن ہماری انجو  ایک ننھا سا جھنڈا اٹھائے یہاں سے وہاں لہراتی نظر آتی ہیں۔انہیں یہ جھنڈا بہت پسند ہے ۔

ابھی کل ہی کی بات ہے ۔ ننھی منی  انجو قالین پر بیٹھیں کھلونوں سے کھیل رہی تھیں۔ ماما جان پاس سے گزریں تو ان کی نظر نیچے پڑے ہوئے جھنڈے پر پڑی ۔ انہوں نے فوراً اٹھا لیا اور بولیں۔’’انجو بیٹا! جھنڈے کو کبھی نیچے نہیں رکھتے۔ اس کو تو ہمیشہ اونچا کر کے رکھتے ہیں۔‘‘ یہ کہ کر انہوں نے جھنڈا  کھڑکی کی اوپر والی گرل پر لٹکا دیا۔

Anjoo aur bakrey mian

  بقر عید سے تین دن پہلے گھر میں بکرا کیا آیا ہر طرف ہلچل ہی مچ گئی۔ جب دیکھو بکرے میاں کی خدمتیں ہو رہی ہیں۔ بھیا تازہ چارہ لا کر کھلا رہے ہیں۔ ابا جان نہلا دھلا کر صاف ستھرا کر رہے ہیں۔ دادا اباخاکروب کو صفائی کی ہدایات دے رہے ہیں۔ دادی اماں بکرے کو پھلوں کے چھلکے کھلانے پر بضد ہیں۔ آپا چارے کی ٹوکری اچھی طرح صاف کر رہی ہیں۔ ماما جان بکرے کو پہنانے کے لیے ہار بنا رہی ہیں۔

انجو کی کھجوری پونی

میرے سوہنے موہنے بچو! اتوار کا دن تھا۔ آج سبھی گھر پر تھے۔ بھیا اپنی سائیکل صاف کر رہے تھے۔ دادو جان آپا کے بالوں میں تیل سے مالش کر رہی تھیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں ڈانٹتی بھی جا رہی تھیں۔

’’ائے ہئے! کیا روکھے پھیکے بال بنا رکھے ہیں۔ یوں لگتا ہے جھاڑیوں میں ہاتھ پھیر رہی ہوں۔ بٹیا! تیل لگانا سنت ہے۔ بالوں کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔‘‘
ماما جان کچن میں مصروف تھیں کیونکہ آج سب کی پسند کا لنچ بن رہا تھا یعنی چکن پلاؤ اور شامی کباب۔ بابا جان پودوں کی گوڈی کر رہے تھے۔ ہماری ننھی منی انجو بابا جان کے پاس کھڑی تھیں۔ ان کے ہاتھ چھوٹا سا پھوار........

تالہ کس نے لگایا!

میرے پیارے بچو! آج جنگل میں سبھی جانور بہت خوش تھے۔ بندر میاں نے باقاعدہ ایک کلینک کھول لیا تھا ۔ اب جنگل کے جانوروں کو تھوڑی تھوڑی سی دوا کے لیے ندی کے پار جانے کی ضرورت نہیں تھی۔

پہلے دن ہی سے کلینک پر خوب رش رہی ۔ بی چڑیا اپنے دو بچوں کو لے کر آئیں  جنہوں نے دو دن پرانے چاول کھا کر اپنا پیٹ خراب کر لیا تھا۔ گلہری اپنے  ننھےبھتیجے کو لے آئی جو دانت کے درد سے کراہ تھا۔ ہرن اپنی ٹانگ کے زخم کا مرہم لینے کے لیےآیا۔ زرافے میاں اپنی گردن میں نکلا ہوا ایک گومڑ لیے چلے آئے ۔ ان کو ایک اونچے درخت سے پتے کھاتے ہوئے چوٹ لگ گئی تھی۔  اور تو اور خود جنگل کے بادشاہ شیر نے بھی اپنی وزیر لومڑی کو بد ہضمی کی دوا لانے کے لیے بھیجا