butterfly

اس Category میں ننھے منے کم سن بچوں کی کہانیاں شامل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی معصوم سی باتوں کے ذریعے زندگی کے بڑے بڑے سبق سیکھنے ہوں تو یہ کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

میرے سوہنے موہنے بچو!  یہ کہانی ہے ایک چھوٹی سی چیونٹی، بِن بِن  کی جو ایک درخت کے نیچے رہا  کرتی تھی۔وہ بہت کام کرتی تھی۔ صبح صبح سارے گھر کی صفائی کرنا اور پھر کھانے کی تلاش میں نکل جانا۔ جب بِن بِن  شام کو واپس آتی تو وہ بہت تھکی ہوتی تھی۔ اس کے کپڑے بھی کافی گندے ہو جاتے لیکن اس کو اتنی نیند آرہی ہوتی تھی کہ وہ انہی کپڑوں میں سو جاتی۔ جب صبح ہوتی تو وہ جھاڑو لگاتی ۔ اس کے کپڑوں پر مٹی لگ جاتی لیکن وہ پھر وہ انہی کپڑوں میں کھانا تلاش کرنے نکل جاتی۔

بِن بِن  کو کبھی کپڑے صاف رکھنے کا خیال نہیں آیا تھا۔ اس کے پاس کافی سارے کپڑے اور بھی تھی لیکن ایک ہی فراک بہت سارے دنوں تک پہنے رہنا اس کی عادت بن گئی تھی۔ جو کہ میرے پیارے بچو! بالکل اچھی عادت نہیں تھی! 

میرے سوہنے موہنے بچو!یہ کہانی ہے ایک بھورے رنگ کی چڑیا,، چوں چوں کی جس کا گھر آم کے درخت پر بنا ہوا تھا۔ایک دن کیا ہو ا کہ جنگل میں بہت زور سے ہوا چلی اور چوں چوں کا گھر ٹوٹ گیا۔ وہ ساری رات چوں چوں نے اپنی سہیلی چن من کے گھر گزاری۔

صبح صبح سب چڑیاں چوں چوں کے پاس آ گئیں۔ وہ چوں چوں کے لیے کھانا لائی تھیں۔ انہوں نے چوں چوں کو کھانا کھلایا اور کہا۔

’’بہن! تم فکر نہ کرو۔ ہم سب مل کر تمھارا گھر دوبارہ سے بنا دیں گے۔‘‘

یہ کہ کر چڑیاں درخت سے اڑیں اور چھوٹے چھوٹے تنکے اکھٹے کرنے لگیں۔ کوئی چڑیا دھاگا لائی تو کوئی مرغی کا پر۔ پیارے بچو! خود چوں چوں چڑیا بھی درختوں کے نیچے سے تنکے اکھٹے کر رہی تھی۔ شام تک گھر بنانے کا کافی سامان اکھٹا ہو گیا۔

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک چوہے اور اس کے دو ننھے سے بچوں کی جو جنگل میں رہا کرتے تھے۔ چوہے کا نام چینو  تھا۔ چینو کے بچے ، مینو اور شینو بہت شرارتی بچے تھے۔ ان دونوں کو بڑے بڑے جانور جیسے شیر، ہاتھی ، زرافہ اور چیتا دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ  اکثراپنے ابا چینو کی بات نہ مانتے  اور شیر کو ڈھونڈنے چل پڑتے ۔ کبھی وہ ہاتھی کو دیکھنے کی ضد کرتے اور کبھی زرافہ کی گردن پر چڑھنے کا کہتے۔

’’دیکھو میرے بچو! یہ جانور ہم سے بڑے ہیں۔ ہو سکتا ہے جب ہم ان کے پاس جائیں  تو یہ ہمیں نقصان پہنچائیں۔ اس لیے ان سے دور رہنا بہتر ہے۔‘‘ چینو نے اس رات کو بھی انہیں سمجھایا۔

شینو اور مینو کا پلان کچھ اور تھا۔ اگلی صبح جب ان کے ابا کھانا لینے گئے تو وہ دونوں گھر سے نکل گئے۔

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک چھوٹے سے مینڈک کی جس کا نام مکی تھا۔ وہ بہت پیارا مینڈک تھا۔ اس کا رنگ سبز رنگ کا تھا اور اس پر چھوٹے چھوٹے سفید دھبے تھے۔ مکی کا گھر آم کے درخت کے پاس ایک تالاب میں تھا۔ تالاب میں بڑے پتھر کے پیچھے  مینی مچھلی کا گھر تھا۔ مینی مچھلی بہت اچھی تھی۔ وہ سب کے کام آتی تھی۔ مینی اورمکی ہمیشہ اکھٹے ہی کھانا کھاتے تھے۔ کبھی مینی شکار پکڑ لاتی اور کبھی مکی کھانے کا انتظا م کر لیتا۔

میر ے بچو! ایک بار مکی مینڈک کو بہت مزیدار سا کیچوا مل گیا۔ آج اس کا دل کرنے لگا کہ وہ مینی مچھلی کو نہ بلائے اور سارا کھانا اکیلے کھا لے۔

’’اگر مینی مچھلی بھی میرے ساتھ کھائے گی تو میرے حصے میں آدھا کیچوا آئے گا۔ کیوں نہ میں یہ سارا خود ہی کھا جاؤں۔‘‘ مکی مینڈک نے سوچا اور جلدی جلدی اس نے سارا کیچوا کھا لیا۔

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے خرگوش کے دو پیارے پیارےسے بچوں کی جن کے نام گوشی اور موشی تھے۔ گوشی اور موشی کو بارش بہت اچھی لگتی تھی۔ جب بھی جنگل میں بارش ہوتی ، وہ خوب نہاتے ۔

ایک دفعہ تو کئی دن گزر گئے ، جنگل میں بارش نہیں ہوئی۔ گوشی موشی کو بارش کا انتظار تھا۔

’’بارش کب ہو گی؟‘‘ وہ روز اپنی امی سے پوچھتے۔

’’جب پانی بادلوں میں جمع ہو گا۔ ‘‘ امی جواب دیتیں۔

ایک صبح جب گوشی اور موشی کی آنکھ کھلی تو بارش کے قطروں کی آواز آ رہی تھی۔

’’ٹپ ٹپ ٹپ‘‘

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے بلی مانو کے ایک چھوٹے سے بچے کی جس کا نام میاؤں تھا۔ میاؤں بہت پیارا ، نرم ملائم اور سفید بالوں والا بچہ تھا۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔اس لیے وہ سکول نہیں جاتا تھا۔ جب صبح اس کے سب بہن بھائی ناشتہ کر رہے ہوتے تو  وہ سو رہا ہوتا۔ بلی مانو اس کو دس بجے اٹھاتی، اس کا منہ ہاتھ دھلاتی اور پھر اس کو ناشتہ کرانے لگتی۔

’’نہیں! نہیں! میں ناشتہ نہیں کروں گا۔ مجھے ناشتہ کرنا اچھا نہیں لگتا۔‘‘ میاؤں  نے منہ بنا کر کہا۔ یہ تو روز کی بات تھی۔ اصل میں میاؤں کو ناشتہ کرنا بالکل پسند نہیں تھا۔ کبھی وہ پیٹ میں درد کا بہانہ بناتا کبھی کہتا مجھے تو بھوک ہی نہیں ہے۔

میرے سوہنے موہنے بچو! ایک جنگل میں بہت بڑے تالاب کے کنارے دو تیتر رہا کرتے تھے۔ ان کے کوئی نام تو نہ تھے لیکن سب جانور انہیں چھوٹا تیتر اور بڑا تیتر  کہتے تھے۔ جب گرمیاں آتیں تو تیتر تالاب کے پانی میں مزے سے نہاتے۔ چھوٹا تیتر نہاتے وقت پروں سے چھینٹے اڑاتا تو بڑا تیتر اسے منع کرتا۔

’’نہیں! ایسے نہیں کرتے۔ اچھے تیتر پانی ضائع نہیں کرتے۔ پانی کی پری پانی لے جائے گی اور تالاب سوکھ جائےگا۔‘‘

چھوٹے تیتر کو کبھی یہ بات  سمجھ نہ آتی۔ وہ کہتا۔ ’’مجھے تو چھینٹے اڑانے میں مزہ آتا ہے۔ میں تو ایسے ہی نہاؤں گا۔ ‘‘ یہ کہ کر وہ اور زور زور سے چھینٹے اڑاتا۔ یہ چھینٹے کبھی پاس ہی بیٹھے مینڈک پر پڑتے اور کبھی ساتھ والے ٹیلے پر چیونٹیوں کے گھر میں ۔

ایک دن مینڈک نے بڑے تیتر سے شکایت کر دی۔