butterfly

اس Category میں ننھے منے کم سن بچوں کی کہانیاں شامل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی معصوم سی باتوں کے ذریعے زندگی کے بڑے بڑے سبق سیکھنے ہوں تو یہ کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے سے بچےکی جس کو بال کٹوا نا بالکل پسند نہیں تھا۔ اس کا نام منا تھا۔ منے میاں کو جب بھی ابا   جان نائی انکل کے پاس لے جانے لگتے۔ منے میاں شور مچادیتے۔  

’’نہیں  نہیں! میں بال نہیں کٹواؤں گا۔ مجھے قینچی سے ڈر لگتا ہے۔ ‘‘

سب نے منے میاں بہت سمجھایا لیکن منے میاں کے دل میں قینچی سے ڈر بیٹھا ہوا تھا ۔ وہ ڈر نہ نکل سکا۔ انہیں لگتا تھا کہ قینچی ان کے بالوں کے ساتھ ساتھ ان کے کان اور ناک بھی کاٹ دے گی۔ پھر وہ خواب میں اپنے آپ کو دونوں کانوں کے بغیر دیکھتے کبھی دیکھتے کہ ان کی ناک ہی سرے سے کٹ چکی ہے۔

پیارے بچو! آخر وہ دن آگیا جب منے میاں کو نائی انکل کے پاس جانا پڑ ہی گیا۔

ہو ا یہ کہ اس دن جب منے میاں ابا کی انگلی پکڑے بازار سے واپس آرہے تھے تو ابا کی نظر نائی کی دکان پر پڑی۔ دکان خالی تھی اور نائی فارغ بیٹھا ہوا تھا۔ ابا جان نے سوچا چلو منے میاں کے بال ہی کٹوا لیتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا!

ایک ہڑبڑ سی مچ گئی۔

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے سے بچے عمر کی جس نے دو چوزے رکھے ہوئے تھے۔ ان کے نام مونو اور ٹونو تھے۔ یہ دونوں چوزے عمر کے دوست تھے۔ عمر جہاں جاتا مونو اور ٹونو عمر کے پیچھے پیچھے چلتے۔ کبھی عمر پارک جاتا تو ٹونو اور مونو بھی اس کے ساتھ ہوتے۔ کبھی وہ سائیکل چلاتا تو مونو اورٹونو اس کے ساتھ ریس لگانے لگتے۔

’’چوں چوں چوں ! چوں چوں چوں!!‘‘

جب چھٹیاں ختم ہوئیں تو عمر نے اپنا بستہ تیار کیا اور سکول جانے کی تیاری کی۔ وہ اداس تھا۔ وہ ساری چھٹیاں مونو اور ٹونو کے ساتھ کھیلتا رہا تھا۔ اب وہ ان کے بغیر اپنا دن کیسے گزاراکرے گا۔ رات کو دیر تک  ٹونو اور مونو  کے چھوٹے سے پنجرے سے آوازیں آتی رہیں۔ وہ ایک پلان بنارہے تھے کہ کیسے عمر  کے ساتھ سکول جائیں۔انہیں عمر بہت اچھا لگتا تھا  اور وہ اپنے دوست سے دور نہیں رہنا چاہتے تھے۔

میرے سوہنے موہنے بچو!  جنگل میں ٹھنڈ ہونے لگی ہے اور ہنی میاں جو کہ ایک چھوٹے سے ہاتھی ہیں، اب اپنے گھر سےکم کم نکلتے ہیں۔  یہ کہانی جو ہم آپ کو سنانے جارہے ہیں اس وقت کی ہے جب گرمیوں کے دن تھے اور ہنی میاں کو جھولے لینے کا بہت شوق تھا۔  

درختوں کی شاخوں سے بنا ہوا اور نیچے تک لٹکا ہوا۔ یہ اصل میں بندروں کا جھولا تھا۔  اس دن وہ خوراک لینے کہیں دور گئے ہوئے تھے۔ ہنی میاں وہاں سے گزرے تو انہوں  نے سوچا موقع اچھا ہے۔ آج میں جھولا لیتا ہوں ۔ انہوں نے بیٹھتے ہی پاؤں سے زور لگایا تو جھولا اوپر اٹھ گیا۔

لیکن یہ کیا! جب تک ہنی کے پاؤں دوبارہ زمین کو چھوتے، جھولے سے ’’تڑخ تڑخ‘‘ کی آوازیں آنے لگیں۔

 

میرے سوہنے موہنے بچو! ننھا شیر اس وقت اپنے ابا جان کے ساتھ پہاڑی پر بیٹھا تھا۔  شام ہو چکی تھی اور سورج ڈھل رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد  ننھے شیر  نے کہا۔

’’ابا جان! میں نے سورج سے کھیلنا ہے۔ ‘‘

شیر ہنس پڑا اور بولا۔

’’پیارے بیٹے! سورج ہمارے ہاتھ نہیں آ سکتا۔ یہ بہت اونچا ہے۔‘‘

’’نہیں  ابا جان! میں اسے پکڑ کر رہوں گا۔ یہ پاس ہی تو ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر ننھے شیر نے اچھل اچھل کر  گول مٹول سورج کو پکڑنے کی کوشش کی۔

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ایسے کوّے کی جس کو دال چنا بہت پسند تھی۔ اس کوّے کا نام کائیں تھا اور وہ مالٹے کے درخت پر رہا کرتا تھا۔ ایک دن وہ جنگل پر سے اڑ رہا تھا اور کچھ کھانے کو ڈھونڈ رہا تھا کہ اچانک اس کو ایک جگہ دال چنا پڑی نظر آئی۔

پہلے تو اس نے سمجھا کہ یہ کوئی شکاری ہے جس نے یہ دال پرندوں کو پکڑنے کے لیے پھینکی ہے  اور ضرور اس کے ساتھ کوئی جال ہو گا۔ لیکن پھر اس نے غور سے دیکھا تو وہاں کوئی جال نہیں تھا۔اصل میں  وہاں سے ایک ٹرک گزرا تھا جس میں پڑی ہوئی بوری سے دال چنا گر گئی تھی۔

 کائیں بہت خوش ہوا۔ اس نے دو تین دانے  اپنی چونچ میں پکڑےاور درخت پر لے گیا۔ وہاں اس نے یہ دانے ایک پتے پر رکھ دیے۔

میرے سوہنے موہنے بچو! لالی ایک پیاری سی  مرغی تھی ۔ وہ بہت ساری مرغیوں کے ساتھ ایک بڑے سے ٹرک میں شہر جا رہی تھی۔ وہاں ان کو  ایک ڈاکٹر نے چیک کرنا تھا۔ سب مرغیاں خوش تھیں کیونکہ اس طرح ان کی سیر بھی ہوجاتی تھی۔ اس ٹرک میں چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں تھیں۔ لالی کو تیز تیز پیچھے جاتی ہوئی سڑک دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ اس نے کھڑکی سے اپنی گردن باہر نکال لی۔

’’لالی! گردن اندر کرو  ورنہ باہر گر جاؤ گی۔‘‘ لالی کی امی نے کہا۔

’’نہیں امی جان! میں نے ریلنگ پکڑ رکھی ہے۔ میں گر نہیں سکتی۔ ‘‘ لالی نے جواب دیا اور اپنے پنجے خوب جما کر کھڑی ہو گئی۔

تھوڑی دیر بعد ٹرک کی رفتار آہستہ ہوئی اور ایک سپیڈ بریکر آگیا۔

میرے سوہنے موہنے بچو! بھالو میاں تیز تیز چلے  جا رہے تھے کہ  ان کے دوست بھورے بندر نے اسے روک لیا۔

’’بھالو بھائی! آپ کہاں چلے؟‘‘

’’میں شہد لینے جا رہا ہوں۔ ‘‘ بھالو نے جواب دیا ۔

’’لیکن آپ لیٹ ہو گئے ہیں۔ شہد تو ختم ہو گیا ہو گا۔ ‘‘ بھورے بندر نے بتایا تو بھالو میاں اور تیز تیز چلنے لگے۔