گڈو اور چودہ اگست

نو سالہ گڈو اپنے گھر میں سب سے چھوٹا تھا اور اس وجہ سے سبھی کا لاڈلا بھی۔اسکی ہر خواہش پوری کردی جاتی ۔ایسا کم وبیش ہی ہوتا کہ اس کی کسی با ت سے انکارکیا جائے۔

وہ بہت ہی پیا را بچہ تھا۔اسکی شرارتیں اور حرکتیں اتنی پیا ری ہوتیں کہ ٹوٹ کے پیار آتا اور تو اور اسکی با تیں بھی بڑی دلچسپ تھیں۔ یو ں وہ سب کی آنکھ کا تارا تھا

گڈو ابھی نو  سال کا ہونے کے باوجود حساس اور ہر اک کا  بہت خیال  کر نے والا بچہ تھا۔

ایک دفعہ اسکے دادا حضور مطالعہ کر تے کرتے اپنی کرسی پر ہی سوگئے۔ہاتھ میں عینک پکڑی ہوئی تھی۔نیند کا غلبہ اتنا تھاکہ ہاتھ سے کب عینک چھو ٹ کر گری انہیں علم نہ ہوسکا۔وہ تو اچا نک گڈو انکے کمر ے میں آیا  اسے انہیں اپنی نئی نظم سنانا تھی جو آج ہی ٹیچر نے یاد کرائی تھی۔جوں ہی وہ کمرے میں داخل ہوا اسکی نگا ہ فورا نیچے گری عینک پر پڑی اور وہیں ٹھہر گئی ۔ وہ لپک کے اسکے پاس پہنچا ۔ عینک ٹوٹ چکی تھی۔ اسے بے حد رنج ہوا ۔ وہ دھیرے سے کمرے سے نکلا تاکہ دادا ابو کی نیند نہ خراب ہو۔اور کمرے سے باہر جاتے ہی اپنے ابا جان کی جان ہلکان کر نے لگا ۔بس اک ہی رٹ ابھی عینک بنوائیں ۔ ناچار اسکے ابو کو اٹھنا ہی پڑا۔دونوں عینک کی دکان پر گئے اور بنواکے  اپنےساتھ ہی گھر لے آئے ۔وہاں دادا ابو پریشان بیٹھے تھے کہ بنا عینک کے انہیں کچھ صحیح سے دکھائی نہیں دیتا۔گڈو فورا انکے پاس عینک لیکر لپکا اور اپنے ہاتھ سے پہنائی۔دادا ابو بے حد خوش ہوئے۔دادا ابو کو جب ساری بات کا علم ہوا انہیں گڈو پر بہت پیارا آیا۔ انہوں نے اس سے خود سے چمٹا لیا۔ گڈو ایسا ہی تھا، سب کا خیال رکھنے والا۔ بہت محبت کرنے والا بچہ تھا۔

وہ ہر سال 14اگست کے لیے پیسے جمع کرتا اور جشن آزادی کی تیاری کے لیے  گھر کا ہر فرد اسے  الگ سے بھی پیسے دیتا جس سے وہ اپنی امی کے ساتھ جا کے ڈھیر ساری شاپنگ کرتا۔اور پھر گھر کو سجاتا ۔ گھر میں تقریب رکھی جاتی سب بچوں کوبلوایا جاتا۔ اس تقریب میں بچوں کے لیے  مختلف کھیل، تقریری مقابلے،ملی نغمے وغیرہ ہوتے۔پھر بڑے بزرگ آزادی کی داستانیں سناتے ۔ قیامِ پاکستان کے بارے میں بتاتے۔اور بچوں کو اپنے ملک کا نام روشن کرنے کا درس دیتے۔غرض تقریب میں نہ صرف کھیل کود ہوتا بلکہ بہت سی معلوماتی چیزیں بھی ہوتیں جن سے بچے بے حد لطف اندوز ہوتے۔

اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی گڈو بہت پرجوش ہوجاتا۔اور اپنی تیاریاں شروع کردیتا آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔14اگست کا فی قریب آچکی تھی۔اور وہ اسکول جانے سےپہلے ہی امی سے کہہ کر گیا تھا کہ آج انکے ساتھ شاپنگ کے لئے جائے گا۔اس لیے گڈو کی امی اب  جلدی جلدی گھر کے کام نمٹا رہی تھیں۔

گڈو اسکول سے آتے ہی سب کو سلام کرتا کچن میں پہنچا جہاں اسکی امی کھانا بنا رہی تھیں۔

"السلام علیکم، امی۔کیا آپ ابھی تک فارغ نہیں ہوئیں؟"

"وعلیکم السلام،بیٹا فارغ ہی ہوں ۔ بس سب کو کھانا دے دوں جاؤ آپ بھی جلدی سے منہ ہاتھ دھوکے۔آجاؤ۔دوپہر ساتھ کھاناکھاکر ان شاء اللہ نکلیں گے"

گڈو کی بانچھیں کھل گئیں۔"جی امی بس ابھی آیا"۔

گڈو کی والدہ نے جلدی سے کھانا لگایا۔اورسب کو بلانے چل دیں۔

دادا ابو دسترخون پر بیٹھتے ہوئے بولے۔

"بھئی ہمارا گڈو کہاں ہے؟ "

گڈو بھاگتا ہوا آیا۔"جی دادا ابو میں آگیا!"

’’شاباش! میرا بچہ اورسنا ؤ کیسا رہا آجکا دن؟‘‘

"بہت اچھا دادا ابو!آجکل سب 14اگست منا نے کی تیاری میں مصروف ہیں۔میں بھی آج بازار جا ؤنگا"۔

گڈو کے چہرے پر خوشی ہی خوشی تھی۔

داداابو پوتے کو خوش دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔کھانا کھاتے ہی وہ امی کے سر ہو گیا۔

’’چلیں امی!‘‘

’’جلدی کریں باہر اندھیرا ہوجائےگا۔‘‘ گڈو نے بے صبری سے کہا تو امی مسکرانے لگیں۔

"جی بیٹا! آپ جاکر گاڑی میں بیٹھیں۔ میں عبا یا پہن کر آتی ہوں۔‘‘

گڈو خوشی خوشی گاڑی میں جا کے بیٹھ گیا۔

رخسانہ ہاتھ کے ہاتھ کام نمٹا کر عبایا پہننے چلی گئیں۔

گاڑی بازار میں داخل ہوئی توگڈو پرجوش انداز میں بولا۔"امی سب سے پہلے اس دکان میں چلیں گے یہاں جھنڈے بہت اچھے ملتے ہیں"۔

رخسانہ مسکرائیں اور بولیں۔’’اچھاجی! میرے پیارے شہزادے!‘‘

گڈو جیسے ہی جھنڈا لیکر دکان سے نکلااسکی نظر دکا ن کے چبوترے پر بیٹھے اک بچے پر پڑی جو مسلسل رورہاتھا اور اپنی امی سےکوئی ضد کر رہا تھا۔ابھی وہ بچے کے پا س جانے ہی والا تھاکہ اسکی امی کی آواز آئی۔ "گڈو بیٹے!  کہاں رہ گئے؟" (جاری ہے)

  


{rsform 7}