جب چھٹیاں ہوئیں!

فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد  چھ سالہ عبداللہ سیدھے بسترمیں چلا گیا۔ ماما جان کے کئی دفع آواز دینے پر بھی اس نے بستر نہیں چھوڑا۔

’’عبداللہ اٹھ جاؤ بیٹا آپ نے اسکول نہیں جانا، دیکھو نور آپی تیار ہورہی ہے۔‘‘  ماما جان نے پیار سے عبداللہ کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

’’نہیں ماما مجھے اسکول جانا اچھا نہیں لگتا۔‘‘ عبداللہ نےچادر سے سر نکال کر جواب دیا۔

"اسکول جانا اچھا کیوں نہیں لگتا آپ کو تو وہاں اچھی اچھی باتیں سیکھنے ملتی ہے۔دیکھو تو نور آپی بھی اسکول جارہی ہے"۔ ماما جان نے اسے پیار سے سمجھانا چاہا۔

"نہیں ماما مجھے اسکول جانے سے ڈر لگتا ہے وہاں ڈھیر سارے بچے ہوتے ہیں اور ٹیچرز بھی۔ مجھے خوف آتا ہے مجھے نہیں جانا۔‘‘ عبداللہ نے کمبل سر تک اوڑھ لی۔

’’دیکھو ضد نہیں کرتے جلدی سے اٹھو۔‘‘ ما ما جان نے ڈانٹ کر کہا۔  اب ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ عبداللہ نے زور زور سے رونا شروع کردیا۔’’ ماما میں نے اسکول نہیں جانا!!‘‘  بابا نے بھی سمجھایا اور بھیا نے بھی لیکن عبداللہ کسی کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔

عبداللہ کے رونے کی آواز سن کر دادی جان اپنے کمرے سے باہر آئیں

اور اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا پھر کہنے لگیں۔’’کوئی بات نہیں آج آپ ہمارے ساتھ گھر پر ہی رک جاؤ۔ نور آپی بھیا کے ساتھ  اسکول چلی جائے گی۔‘‘ یہ کہتے ہی دادی جان نے عبداللہ کو اپنی گود میں لے لیا اور آہستہ آہستہ اس کے بال سہلانے لگیں۔ اسے پتہ ہی نہیں لگا کہ وہ کب سو گیا۔

ایک گھنٹے بعد  جب  عبداللہ کی آنکھ کھلی تو اسے اپنے کمرے میں ہلکی سی روشنی نظر آئی اور ایک نرم سی آواز سنائی دی۔

’’آپ روز صبح سویرے اٹھتے ہیں ۔نماز پڑھ کر قرآن پاک کی تلاوت کے بعد ناشتہ کرتے ہیں اور میری طرف چل پڑتے ہیں۔ میں بھی آپ کا بےصبری سے انتظار کرتا ہوں۔ جوں ہی آپ میرے دروازے پر پہنچتے ہیں۔ میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔آپ لوگوں کے پھول جیسے چہرے دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ میں ہر بچے سے پیار کرتا ہوں، دعا اور قومی ترانے کے بعد جب آپ لوگ اپنی کلاسوں میں جا کر بیٹھتے ہیں تو میں آپ کا خیال رکھتا ہوں۔ جب آدھی چھٹی ہوتی ہے تب کوئی کھانا کھاتا ہے تو کوئی کھیلتا ہے، مجھے آپ لوگوں کے مختلف قسم کے کھیل بہت پسند ہے۔ کچھ بچے اتنے شریر ہوتے ہیں کہ میری کھڑکیاں، میز اور کرسیاں توڑ دیتے ہیں۔ میرے درختوں اور پودوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ مجھے ان تمام دوستوں سے شکایت ہیں، میری یہ تمام بچوں سے گزارش ہیں کہ مجھے صاف ستھرا رکھا کریں، میری چیزوںکی حفاظت کیا کریں، میں آپ لوگوں کے علم میں اضافہ کرتا ہوں۔ میری قدر کیا کریں۔ مجھے وہ بچے بہت پسند ہیں جو میری صفائی کا خیال رکھتے ہیں، میری چیزوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ جب کی چھٹی ہوتی ہے تو میں دروازے پر آپ کو اللہ حافظ کہتا ہوں اور دوسری صبح آپ کے آنے کا منتظر رہتا ہوں۔ تم نے مجھے پہچانا عبداللہ؟  میں  ہوں تمہارا پیارا اسکول! میں آج بھی تمہارا منتظر تھا تم نہیں آئے! میں تمھارے بغیر بہت اداس ہوں۔  میں اب بھی تمہارا منتظر ہو تم کل اسکول آؤ گے نا عبداللہ...؟ جواب دو آؤ گے نا...؟‘‘

’’عبداللہ! اٹھو بیٹا کھانے کا وقت ہوگیا۔‘‘  ماما نے پیار سے عبداللہ کو اٹھاتے ہوئے کہا۔

’’ہاں ہاں میں آؤں گا۔ میں آؤں گا ۔ تم اداس نہ ہو۔ ‘‘  عبداللہ نیند میں بڑبڑاتے ہوئے کہ رہا تھا۔

’’عبداللہ! اچھے بیٹے! چلو اٹھ جاؤ۔  چلو اٹھو ہاتھ منہ دھو لو"۔ ماما نے عبداللہ کو پیار کرتے ہوئے کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن  خلاف معمول عبداللہ ماما کی ایک آواز پر ہی اٹھ گیا۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد جلدی جلدی دانت صاف کیے، اسکول کے لیے تیار ہوا اور ناشتے کے لیے دادی جان کے پاس بیٹھ گیا۔

یہ تو بہت اچھی بات ہے بیٹا آج آپ اسکول کے لیے تیار ہو! ماشاء اللہ!‘‘ دادی جان نے عبداللہ کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔

’’جی دادی جان کیونکہ میرا دوست اسکول میرا انتظار کر رہا ہے!‘‘  عبداللہ نے فخر سے کہا۔

بابا جان نے ہارن دیا تو نور آپی اور عبداللہ دونوں نے ماما جان اور دادو کو خدا حافظ کہا اور باہر نکل گئے۔

 


{rsform 7}