’’یہ کیا فاتی اور بلو تم دونوں اب تک سوئے نہیں ہو ۔گھڑی کی طرف ذرا دیکھو کیا ٹائم ہوگیا ہے ؟‘‘

امی جان نے اچانک کمرے کا دروازہ کھولا تو فاتی اور بلو دونوں اپنی اپنی ویڈیو گیم کھیلنے میں مگن تھے ۔ امی  کمرے میں کب آئیں انہیں پتہ ہی نہیں چلا ۔فاتی نے اپنا ویڈیو گیم جلدی سے تکیہ کے نیچے چھپا دیا اور کہا ۔

’’نہیں امی جان میں  تو نہیں کھیل رہی تھی۔ یہ بلو ہی وڈیوگیم کھیل رہا تھا۔‘‘  فاتی نے اپنی بات پوری نہیں کی تھی کہ تکیے کے نیچے سے گیم کےEnd ہونے کی آواز  آنےلگی۔

 

بلو جو منہ بسور رہا تھا، زور سے ہنس پڑا کہ فاتی کا جھوٹ یکدم  پکڑا گیا ۔

کچھ دنوں سے امی جان دونوں کو سلانے کے لیے کمرے میں بھیج دیتیں تو وہ دونوں خوشی خوشی سےچلے جاتے۔ امی جان بھی سوچتیں کہ پہلے تو جلدی نہ سونے کے لیے بڑی ضد کرتے اور کہتے کہ ابھی تو نیند ہی نہیں آئی کیسے سوئیں۔لیکن پچھلے کچھ دنوں سے تو بہت آرام سے اپنے کمرے میں چلے جاتے اور پھر خاموشی چھا جاتی۔

خیرآج اس کی وجہ معلوم  ہو ہی گئی۔  پھر امی جان نے ان کو سمجھایا ۔’’ میرے بچو!  مجھے معلوم ہے بابا نے تمہاری پوزیشنز پر ویڈیو گیم گفٹ میں دیے تھے لیکن ساتھ ہی انہوں نےیہ بھی تو کہا تھا ناں کہ   پڑھائی میں حرج نہ ہو۔پورے دن میں صرف ایک ٹائم گیم کھیلنا ہے ۔‘‘

’’امی جان ! ہم بھی تو ایک ہی ٹائم میں گیم کھیلتے ہیں۔پورا دن تو اپنا سبق ہی پڑھتے رہتے ہیں ۔‘‘ بلو نے اداسی سے کہا۔ امی نے پیار سے اس کے بالوں کو سنوارا اور  کہا۔’’بیٹا! یہ وقت آپ نے غلط منتخب کیا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ گیم کھیلنے کے لیے کوئی اور وقت رکھیں۔ کیونکہ رات کو دیر تک کھیلنے سے صبح جلدی کیسے اٹھو گے؟اس کی وجہ سے صحت بھی خراب ہو جائے گی۔زیادہ دیر ویڈو گیم کی روشنی سے آنکھوں کی نظر خراب ہو جاتی ہے۔پھر تو تمہیں صاف دکھائی بھی نہیں دے گا ۔‘‘

فاتی امی کی ساری باتیں بڑے غور سے سن رہی تھی ۔ اچانک اس کو سمجھ آ گیا کہ اس بار اس کے منتھلی ٹیست میں بھی کم نمبر آئے ہیں ۔ہاں!maths  میں بھی پورے نمبرنہیں آئے ۔ جب امی سونے کا کہتی ہے تو میں اور بلو ویڈیو گیم دیر تک کھیلنے لگ جاتے ہیں ۔پھر صبح پہلی کلاس میتھ کی ہی ہوتی ہے جس میں بہت نیند آتی ہے۔ اس وجہ سے دھیان بھی کلاس میں نہیں ہوتا ہے  اور سوال بھی سمجھ نہیں آرہے۔فاتی اپنی سوچوں میں گم تھی کہ امی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا ۔’’فاتی بیٹی تم کیا سوچ رہی ہو؟‘‘

’’ جی امی جان !آپ کا بہت شکریہ ۔رات دیر تک جاگنے سے  میری پڑھائی بہت ڈسٹرب ہو رہی تھی لیکن سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے ؟‘‘

بلو بھی کہنے لگا ۔’’ مجھے تو کلاس میں ڈانٹ پڑنے لگی ہے  ۔ٹیچر کہتی ہیں کہ  آپ کا دھیان کلاس میں کیوں نہیں ہوتا۔  میں کلاس میں بھی  یہی سوچتا  رہتا ہوں کہ گھر جا کر گیم کھیلوں گا اپنا لیول پورا کروں گا ۔‘‘

’’یہی بات تو  میں آپ دونوں کو بات سمجھا رہی ہوں کہ ہر چیز کا ایک ٹائم ٹیبل ہوتا ہے ۔آپ دونوں میرے ذہین بچے ہو ۔کلاس میں اچھے نمبر لیتے ہو۔ اب اگر اپنا وقت گیم کھیلنے میں خراب کرو گے تو گزرا وقت واپس نہیں آئے گا۔‘‘

’’ٹھیک ہے امی جان!‘‘ فاتی اور بلو نے ایک ساتھ کہا تو امی مسکرانے لگیں۔

فاتی اور بلو کی طرح آپ سب بچے بھی بہت پیارے اور ذہین ہیں۔  اپنے وقت کا خیال رکھیں۔ اس کو ضائع نہ کریں۔ یہ اللہ کی دی ہوئی ایک نعمت ہے۔