’’دادا جان! کہانی سنائیں ناں! ‘‘ سعد نے کہا تو دادا ابو نے عینک اتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔ پھر کہنے لگے۔
’’اچھا ٹھیک ہے! سناتا ہوں۔‘‘ ابھی انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ امی کمرے میں داخل ہوئیں۔ ان کے ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں نیم گرم دودھ کے دو گلاس رکھے ہوئے تھے۔ ایک گلاس انہوں نے دادا ابو کو پکڑایا اور ایک سعد کوتھماتے ہوئے بولیں۔
’’بیٹا! کہانی بھی سنو اور دودھ بھی پی لو۔ ‘‘ یہ کہ کر انہوں نے سعد کو پیار کیا اور
چلی گئیں۔
سعد کہانی کے شوق میں جلدی جلدی سارا گلاس خالی کر نے لگا۔ دادا ابا نے دیکھا تو کہنے لگے۔
’’سعد! آپ نے شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھی۔ پیارے نبی ﷺ کوئی بھی چیز کھاتے یا پیتے وقت بسم اللہ ضرور پڑھتے تھے۔ اللہ کے نام میں بہت برکت ہے۔ ‘‘
سعد کے منہ سے نکلا۔ ’’اوہ!‘‘ پھر اس نے دیکھا گلاس میں آخری گھونٹ رہ گیا تھا۔ اس نے بسم اللہ پڑھی اور گلاس خالی کر کے سائیڈ پر رکھ دیا۔یہ دیکھ کر دادا ابا ہنس پڑے ۔ پھر انہوں نے بتایا۔
’’بسم اللہ کہنے سے ہر کام میں اللہ کی مدد شامل ہو جاتی ہے۔ چلو میں تمھیں اسی بارے میں ایک کہانی سنا تا ہوں۔ ‘‘ داد ا ابا نے دودھ کا گلاس واپس ٹرے میں رکھا اور نیم درا ز ہو گئے۔ پھر کہنے لگے۔
’’بہت عرصہ ہوا ایک بادشاہ کی مسلمان خادمہ کو ہر کام سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی خاص عادت تھی۔جو بھی اور جیسا بھی کام ہوتا وہ پہلے بس اللہ پڑھتی پھر کام شروع کرتی۔ بادشاہ چونکہ مسلمان نہیں تھا اس لیے اس کی عادت سے بہت چڑتا تھا۔ اس نے کئی بار خادمہ کو ٹوکا لیکن خادمہ کا کہنا تھا۔ بسم اللہ میں بہت طاقت ہے۔ اس سے میرا ہر کام آسان ہو جاتا ہے۔
آخر ایک دن تنگ آ کر بادشاہ نے اسے آزمانے کا سوچا۔ اس نے خادمہ کو دو سنہری اور قیمتی موتی دے کر انہیں ایک صندوق میں حفاظت سے رکھنے کی ہدایت کی۔ خادمہ نے حسبِ عادت بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر موتی صندوق میں رکھ دئیے۔ اگلے دن بادشاہ نے اپنے خاص خادموں کو حکم دیا کہ وہ موتی صندوق سے نکال کر سمندر میں پھینک آؤ۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور خادمہ کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
کچھ دنوں بعد بادشاہ اپنے وزیروں کے ساتھ سمندر کی سیر کو گیا۔ انہوں نے کافی مچھلیاں بھی پکڑیں۔ واپس آکر بادشاہ نے خادمہ سے کہا۔ ’’ہمارے لیے یہ مچھلیاں پکا کر لاؤاور ہاں وہ موتی بھی لے آنا جو میں تمھیں کچھ دن پہلے دیے تھے۔‘‘
خادمہ کچھ دیر بعد ہی ایک تھال میں بھنی ہوئی مچھلیاں اور ایک رومال میں وہی سنہری موتی لے آئی۔ یہ دیکھ کر بادشاہ کی حیرت کی انتہانہ رہی۔ اس سے صبر نہ ہو سکا اور اس نے پوچھ ہی لیا۔ ’’آخر یہ موتی تمھارے پاس کہاں سے آئے؟‘‘
خادمہ کہنے لگی۔ ’’میں نے بسم اللہ پڑھ کر ایک مچھلی کاٹی تو اس کے پیٹ سےموتی نکل آیا۔ پھر میں نے بسم اللہ پڑھی اور دوسری مچھلی کاٹی تو اس میں سے دوسرا موتی نکل آیا۔یوں یہ دونوں آپ کے سامنے ہیں۔پس مجھے اپنے رب کے ذکر پر پورا یقین ہے۔‘‘
خادمہ کی بات سن کر بادشاہ نے اسے ڈھیروں انعام سے نواز ا اور پھر اسے اسے بسم اللہ کہنے پر کبھی نہیں ٹوکا۔ ‘‘ اتنا کہ کر دادا ابا خاموش ہو گئے۔
’’دادا ابا! آج کی کہانی تو سب سے اچھی تھی! اب میں بھی ہر کام میں پہلے بسم اللہ پڑھا کروں گا۔ ‘‘ سعد نے کہا تو دادا ابا مسکرانے لگے۔
{rsform 7}