’’بلو بیٹا جلدی سے اٹھو پھر سے دیر ہوجائےگی۔‘‘ امی جان نے کھڑکی کے پردہ سرکاتے ہوئے کہا۔

’’اچھا امی جان!‘‘  بلو نے بستر میں منہ اچھی طرح لپیٹ کر کہا۔

اس دوران فاتی بھی کمرے میں آچکی تھی۔

’’بلو بس اب  اٹھ بھی جاؤ۔ یہ دیکھو میں تیار بھی ہوگئی ہوں۔‘‘

آخرکار بلّو نے بستر سے منہ نکالا اور خوب انگڑائیاں لیں۔ اس کی نیند اب بھی پوری نہ ہوئی تھی۔

’’ارے  یہ کیا! ساڑھے سات بج گئے؟‘‘ بلّو منہ ہاتھ دھو کر آیا تو  اسے دھچکا لگا۔

’’اف! میں نے تو ابھی میتھس کا ہوم ورک بھی مکمل کرنا تھا۔ ‘‘

پھر ہر روز کی طرح بلّو نے  ابھی ناشتہ شروع  ہی کیا تھا کہ وین آگئی۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فاتی روز رات کو جلدی سوتی اور صبح سویرے اٹھ جاتی۔ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد قرآن کی تلاوت  کرتی پھر اپنے ابو کے ساتھ باغ  میں ورزش کرنے بھی جاتی ۔بلّو بھی اس کا ساتھ دینے کی کوشش کرتا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کچھ دنوں سے اسے دیر سے سونے کی عادت پڑ گئی تھی۔

وہ رات کو دیر سے سوتا پھر بار بار جگانے  پر فجر کی نماز پڑھ کر جلدی سے بستر میں گھس جاتا۔اسکو صبح کی ایکٹیویٹیز میں بالکل دلچسپی نہیں  رہی تھی۔جب وین کے آنے کا وقت ہوتا تو اٹھ کر جلدی جلدی تیار ہوتا  اورکبھی تو بغیر ناشتہ کیےاسکول چلا جاتا۔

 ’’فاتی اور بلو بیٹا! آج شام میں تمھارے  چچا،چاچی ساتھ میں دانی اور شانی بھی اسلام آباد سے آئیں گے۔‘‘

دوپہر کے کھانے میں امی جان نے بچوں  کو بتا یا تو دونوں بہت خوش ہوئے کہ اب ہم مل کر خوب کھیلیں گے۔دانی اور شانی بھی ان کے ہم عمر تھے۔

’’ٹرن ٹرن!‘‘

بیل بجتے ہی فاتی اور بلو گیٹ کی طرف دوڑے اور جوش و خروش کے ساتھ مہمانوں کا استقبال کیا۔

رات کے کھانے سے فارغ ہوکر سب نے تھوڑی سی چہل قدمی کی۔ پھر دانی اور شانی نے کہا۔

’’اب ہم تھک گئےہیں۔ چلو سوتے ہیں۔ ‘‘

بلو تو شاک میں رہا گیا۔ وہ  توسوچ رہا تھا کہ دانی اور شانی اس کی طرح  رات میں دیر تک جاگیں گے اور لوڈو اور کیرم  کھیلیں گے۔

’’تم سب اتنی جلدی کیوں سورہے ہو ابھی تو پوری رات باقی ہے۔‘‘ بلّو نے چڑ کر کہا۔

فاتی نے گھور کر  اسےدیکھا  کہ آج تو اپنی عادت سے باز آجاؤلیکن بلّو پر کوئی اثر نہ ہوا۔

دانی نے کہا۔’’لگتا ہے تم رات کو جلدی نہیں سوتے اورصبح دیر سے جاگتے ہو۔‘‘

شانی بھی کہنے لگا۔ ’’اچھا اسی لیے تمھاری آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے بھی بن گئے ہیں۔‘‘

’’جی بالکل! ایسا ہی ہے۔‘‘ فاتی نے دبی آواز سے کہا۔

بلّو روہانسا ہو گیا۔

’’اب ایسی بھی کیا بات ہے۔ میں تو کہہ رہا تھا کہ بس ایک دوگھنٹے لوڈو کھیلیں گے اور پھر سو جائیں گے۔‘‘

شانی نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا۔

’’چلو ! اندر چلتے ہیں اور سب ایک دوسرے کو اپنی اپنی روٹین بتاتے ہیں۔ جس کی روٹین زیادہ اچھی ہو گی سب اسی پر عمل کریں گے۔ ‘‘

’’ہاں یہ ٹھیک ہے!‘‘ بلّو نے جوش سے کہا۔ فاتی نے بھی سر ہلا دیا۔

پھر باری باری دانی اور شانی نے اپنے دن بھر کی روٹین بتائی۔

’’ہم صبح سویرے اٹھتے ہیں، فجر پڑھتے ہیں، تلاوت کرتے ہیں  پھر ناشتہ کر کے سکول چلے جاتے ہیں۔ واپس آ کر کھانا کھاتے ہیں اور کچھ دیر آرام کرلیتے ہیں۔ پھر عصر کے بعد ہوم ورک اور مغرب کے بعد کھانا کھاتے ہیں۔ عشاء کے بعد بابا جان ہمیں کتاب میں سے کوئی واقعہ سناتے ہیں یا اچھی اچھی باتیں بتاتے ہیں۔ ہم رات کو جلدی سو جاتے ہیں تاکہ صبح اٹھیں تو بالکل فریش ہوں اور سارے کام بھی ٹائم پر ہو جائیں۔‘‘

دانی اور شانی بتا رہے تھے جب کہ بلّو سوچ رہا تھا کہ میں کتنا غلط تھا۔ میں رات کو دیر سے سوتا ہوں اسی لیے میری نیند کبھی پوری نہیں ہوتی۔ میرا کوئی کام وقت پر نہیں ہوتا۔روز ناشتہ سے لیٹ ہو جاتا ہوں اورسکول میں بھی نیند آتی رہتی ہے۔ ‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن جب فاتی اٹھی تو اس نے دیکھا۔ بلّو کا بستر خالی تھا۔

’’ہیں یہ کہاں گیا؟‘‘ فاتی سوچتے ہوئے امی جان کے کمرے میں آئی۔ امی جان نماز پڑھ رہی تھیں۔

فاتی بھی وضو کرنے چلی گئی ۔ نماز میں بھی اسے یہی خیال آتا رہا کہ بلّو کہاں گیا۔ روز تو اس وقت خراٹے لے رہا ہوتا تھا۔

پھر وہ دوبارہ امی سے پوچھنے چلی گئی۔

’’امی ! بلّو کہاں ہے؟‘‘

’’بیٹا! بلّو آج  ماشاء اللہ! جلدی اٹھ گیا ہے اور بابا کے ساتھ نماز پڑھنے گیا ہے۔ ‘‘ امی نے کہا اور جائے نماز سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔

’’میں ذرا تلاوت کر لوں۔ تم بھی نماز پڑھ لو۔ ‘‘

’’جی اچھا! امی جان!‘‘ فاتی نے کہا اور سوچنے لگی۔

’’واہ بلّو! تم تومجھ سے جیت گئے! خیر! کل دیکھتے ہیں پہلے کون اٹھتا ہے۔ ہاں!‘‘  

 

{rsform 7}