سعد نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے آپ کو نانی کے گھر پایا۔گو کہ گھر میں صرف دو افراد رہتے تھے،وہ اور اس کی نانی، پھر بھی سعد کو کبھی اپنی نانی سے دلی لگاؤ محسوس نہیں ہوا۔اس وہاں سب کچھ پرایا پرایا لگتا تھا یہاں تک کہ نانی سے بھی اپنایت محسوس نہیں ہوتی تھی ۔
اس کی ایک بڑی وجہ نانی کا سعد سے انتہائی سرد رویہ تھا۔جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر سعد کو بری طرح سےنہ صرف ڈانٹتی تھیں بلکہ زیادہ تنگ ہونے پراس کو پورے دن کے لیے کمرےمیں بندبھی کر دیتی تھیں۔
اور دوسری وجہ بار بار گھر تبدیل کرنا تھا۔سعد کی نانی جان کہیں ایک جگہ ٹک کر رہتی ہی نہیں تھیں۔ہر سال دو سال بعد وہ محلہ اور کبھی کبھی تو شہر تک چھوڑ جاتیں۔ اس وجہ سے سعد کے نہ تو محلے میں اور نہ ہی اسکول میں اچھے اور قریبی دوست بن سکے۔
اب سعد کی عمر نو سال ہو چکی تھی اور وہ پانچویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ نئے اسکول میں داخلہ ہوئے ابھی چند ہفتے ہی گزرے تھے ، اس لیےاس کے یہاں دوست نہیں بنے تھے اور اس وجہ سے اسکا دل بھی نہیں لگ رہا تھا۔ وہ ایک ایسا ہی اداس و بیزار دن تھا جب اسکول میں آدھی چھٹی کے دوران سعد نےچپکے سے گھر نکل جانے کا فیصلہ کیا۔اور وہ فرار ہو کر گھر آ گیا۔ سعد کو پتہ تھا کہ اس وقت نانی گھر پر نہیں ہوں گی کیونکہ وہ ایک چھوٹے سے رفاہی ادارے میں کام کرتی تھیں۔ اور ان کوکام سے واپسی پر اکثر ہی دیر ہو جاتی تھی۔گھر کی ایک چابی سعد کےے پاس بھی رہتی تھی اس لیے وہ باآسانی گھر آگیا۔
سعد نے سوچ تو یہ رکھا تھا کہ نانی کے غائبانے میں کچھ کھانے پینے کے لیے منگوا کروہ سکون سے لیٹ کر دیر تک ٹی وی دیکھے گا ۔مگر گھر آکر اس کا سارا پلان چوپٹ ہو گیا جب اسے پتہ چلا کے بہت دیر سے علاقے کی بجلی غائب ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا ، اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گیا لیکن کچھ ہی دیر میں گرمی اور بوریت سے اس کی حالت خراب ہونے لگی۔پہلے اس نے گھر کے باغیچے کا رخ کیا مگر تیز دھوپ کی وجہ سے فوراً ہی واپس پلٹ گیا، اب اس نے تازہ ہوا کھانے کے لیے نانی کو کمرے میں جانے کا ارادہ کیا جہاں ایک بڑی سی کھڑکی گھی کے اسی باغیچے میں کھلتی تھی۔کھڑکی کے پاس کھڑے کھڑے وہ تازہ ہوا کے مزے لے رہا تھا جب اس کی نظر اس سوٹ کیس پر پڑی جسے نانی بہت حفاظت سےہمیشہ تالے میں رکھتی تھیں۔ اس سوٹ کیس کے بارے میں سعد کے پوچھنے پر نانی نے اسے بری طرح جھڑک دیا تھا۔اب سعد کی نظریں اسی سوٹ کیس پر ٹک گئی تھیں۔ آج اسے سعد نے کھولنے کی ٹھان لی اور بہت مشکلوں سے پیچ کس کی مدد سے اس نے بلآخر سوٹ کیس کھول ہی لیا۔ اندر نانی کے قیمتی اور کچھ پرانے کپڑے ترتیب کے ساتھ رکھے ہوئے تھے۔سوٹ کیس کے اندرونی جانب اسے ابھار سا محسوس ہوا۔ کپڑے ہٹانے پر ایک بڑی جیب سامنے آئی جو کہ سامان سے کافی پھولی ہوئی تھی۔اس جیب میں سےاخبار کے کچھ تراشے سے نکلے ، سعد غور سے انھیں پڑھنے لگا، اسے حیرانی ہوئی کہ سارے تراشے کسی نا کسی بم دھماکوں کے بارے میں تھے ۔ پاکٹ میں اور بھی دستاویزات تھے جو کوشش کے باوجود سود کی سمجھ نہیں آ سکےکیونکہ وہ سب انگریزی زبان میں لکھے ہوئے تھے۔اچھے اسکولوں میں نہ پڑھنے کی وجہ سے سعد ہمیشہ سے انگریزی میں کمزور رہا تھا۔اس نے ان میں سے کچھ کاغذات چھپا کر رکھ لیے کہ ان کو وہ اپنے انگریزی کے ٹیچر سے سمجھے گا۔
دوسرے دن جب سعد نے وہ کاغذات اپنے استاد کو دکھائے تو ان کے پڑھتے ان کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ پریشانی کے عالم میں وہ بھاگم بھاگ پرنسپل کے پاس پہنچے اور سارے دستاویزات دکھائیں۔جنھیں پڑھ کر ان کے چہرے پر بھی زلزلے کے آثار نظر آنے لگے۔ فوری طور پر پولیس بلائی گئی۔ یہ ساری کاروائی بہت تیزی میں ہوئی اور سعد سے کسی نے نہ کچھ کہا اور نہ ہی کچھ بتایا۔ نتیجاً اس واقت تک سعد بہت خوفزدہ ہو کر رونا شروع ہو چکا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر پرنسپل نے سعد کو پیار کیا ، تسلی دی اور سمجھایا کہ سب ٹھیک ہوگا ، سعد نے بہت بہادری کا کام کیا ہے ان کاغذات کو نکال کر۔ سعد کی نشاندہی پر پالیس نانی کے گھر پہنچ گئی اور نانی کے گھر واپس آتے ہی ان کو گرفتار کر لیا۔ دراصل نانی کا تعلق ایک انتہا پسند جماعت سے تھا جو چھوٹے بچوںکو اغوا کر کے ، ان کو بیرون ملک بھیجتی تھیں۔
تفتیش کے دوران نانی نے بتایا کہ سعد بھی ان کا نواسہ نہیں ہے، سعدجب بہت چھوٹا تھا تو اس کو بھی ایک گھر کے باہر سے کھیلتے ہوئے اغوا کیا گیا تھا اور اب کچھ دنوں میں اس کو بھی بیرونِ ملک سمگل کرنے کا ارادہ تھا ۔ اس عورت کی نشاندہی پر سعد کو اس کے اصل ماں باپ کےگھرپہنچایا دیا گیا ۔ سعد کو اپنے ماں باپ سے بچھڑے سالوں ہو چکے تھے اور اپنے بیٹے کی ملنے کی تمام امیدیں دم توڑ چکی تھیں۔ جتنی خوشی اپنے بیٹے کو واپس زندہ سلامت پا کر ان کو تھی ، اتنی ہی خوشی سعد کو اپنے اصل خاندان حصہ بن کر ملی۔ سچے پیار، لگاؤ اور بھرپور توجہ نے اسکی زندگی کا ادھورا پن ختم کر دیا تھا۔ اب ایک اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے بھر پور زندگی گزار رہا تھا۔
{rsform 7}